پاکستان کی موجودہ حکومت اور منتخب قومی اسمبلی نے 31 مئی کو اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کر لی ہے اور نصف شب کے بعد حکومت ختم اور اسمبلی تحلیل ہو جائے گی۔
قانون ساز اور تجزیہ کار ملک میں مسلسل دوسری مرتبہ منتخب حکومت کی طرف سے پانچ سال کی مدت مکمل کیے جانے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی حکومت میں شامل اراکین پارلیمان کا کہنا ہے کہ یہ سفر آسان نہیں تھا۔
جمعرات کو قومی اسمبلی کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ منتخب حکومت کے آتے ہی قیاس آرائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔
"اب منتخب حکومت کا وقت پورا ہو گیا ہے۔ الیکشن شیڈول آ گیا ہے۔ آج بھی یہی باتیں ہو رہی ہیں کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں۔"
ایوان سے خطاب میں وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
"میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ الیکشن میں تاخیر کی حمایت نہ حکومت کرے گی نہ اپوزیشن کرتی ہے۔ یہ آئین کا حصہ ہے۔ اس میں ایک دن کی بھی تاخیر ممکن نہیں ہے اور نہ ہی قابل قبول ہو گی اور نہ ہی اسی خبریں اخباروں میں چھپنی چاہئیں۔"
اُنھوں نے کہا کہ پارلیمان اور حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد اب اگلا مرحلہ شفاف اںتخابات کے انعقاد کا ہے۔
"ضروری یہ ہے کہ ہم صرف باتیں نہ کریں۔ صاف شفاف انتخابات نظر بھی آئیں اور فری اور فیئر الیکشنز میں ایک بڑا حصہ میڈیا کی آزادی ہے۔"
وزیرِ اعظم نے منتخب حکومتوں کو درپیش چیلنجوں اور مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہو گا جس کے لیے اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر قومی ڈائیلاگ کی تجویز دی۔
"میری رائے ہے کہ ایک ٹُرتھ کمیشن بنا دیا جائے پارلیمینٹ کے اتفاقِ رائے سے۔۔۔ جو کوئی ایشو آئے اس پر وہاں بحث ہو۔۔۔ ہم نہیں کہتے کہ کسی کو سزا دیں۔ لیکن کم از کم یہ ڈاکومینٹ ہو جائے کہ ملک کی تاریخ میں کیا ہوا اور ہم نے اس سے کیا سبق حاصل کرنا ہے۔"
پاکستان میں آئندہ عام انتخابات 25 جولائی کو ہوں گے اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی طرف سے بھیجی گئی سمری پر صدر ممنون حسین دستخط کر چکے ہیں۔
رواں ہفتے ہی حکومت اور حزبِ اختلاف نے نگران وزیرِ اعظم کے لیے سابق چیف جسٹس ناصر الملک کے نام پر اتفاق کیا تھا جو آئندہ عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت تک نظامِ حکومت چلائیں گے۔
تاہم چاروں صوبوں میں اب تک حکومتوں اور حزبِ اختلاف کے درمیان نگران وزرائے اعلیٰ کے ناموں پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے اور امکان ہے کہ اب یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹیوں کے سپرد کردیا جائے گا۔