رسائی کے لنکس

توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کا عزم


پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں منگل کو ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی گئی، جس میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں گزشتہ ہفتے توہین مذہب کے الزام میں مشال خان کے قتل کی شدید مذمت کی گئی ہے۔

قرار داد میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ طالب علم مشال خان کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

یہ قرارداد وفاقی وزیر برائے دفاعی پیدوار رانا تنویر نے پیش کی ، جس میں اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ توہین مذہب کے خلاف موجودہ قانون میں ایسی شقیں شامل کی جائیں تاکہ آئندہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔

قرار داد میں اُن تمام افراد کی مذمت کی گئی جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور جس کا نتیجہ انسانی جانوں کے زیاں کی صورت میں نکلتا ہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے اس بارے میں ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل کے بارے ابھی تک کسی وزیر نے پارلیمان میں آ کر کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

پارلیمان میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ایک یونیورسٹی میں اس طرح کے واقعہ کے پیش آنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں انتہا پسندانہ رجحانات بڑھ رہے ہیں۔

قرارداد کا متن
قرارداد کا متن

قرارداد کی منظوری کے بعد حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ توہین مذہب کے خلاف قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سب متفق ہیں۔

’’تحفظ ناموس رسالت کا جو قانون ہے اس کا صحیح استعمال ہمارے علماء بھی چاہتے ہیں تمام پاکستانی شہری بھی چاہتے ہیں مگر اس کو مزید بہتر کرنے کے لیے اس کو موثر کرنے کے لیے اس کا غلط استعمال روکنے کے لیے بھی تمام متفق ہیں۔۔۔ تو اس لیے یہ قرار داد منظور کی گئی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ پاکستان کی جو قوم ہے وہ مشال کے قتل کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔‘‘

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی عائشہ سید کہتی ہیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ قوانین کے نفاذ کو موثر بنایا جائے۔

’’قوانین تو ہم بنا لیتے ہیں لیکن اس کا جو نفاذ ہے یا اس کی جو مانیٹرنگ ہے اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں اگر قوانین کا نفاذ ہوتا تو کیوں لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی ضرورت ہوتی کیوں اس طرح سے مشتعل ہو کر ایک بچے کی جان جاتی۔۔۔۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہ ادارے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے اگر ادارے اپنا کردار نبھاتے تو اس طرح کے واقعات نہیں ہوتے اور جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرتا اس کو سزا ملتی۔‘‘۔

منگل کو ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں مشال خان کے قتل کے بعد ملزمان ایک مقام پر جمع ہیں اور اُن میں سے ایک شخص حلف لے رہا ہے کہ مشال کو گولی مارنے والے کا نام ظاہر نا کیا جائے۔

اس ویڈیو میں حلف لینے والا شخص اپنا نام عارف بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس مقدمے کی کوئی ’ایف آئی آر‘ درج کروانا چاہتا ہے تو وہ اُسے نامزد کر سکتا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ عارف نامی اس شخص کا تعلق صوبے میں حکمران جماعت تحریک انصاف سے ہے۔

اُدھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے صوابی کے علاقے زیدا میں مشال خان کے گھر پر اُن کے والد سے تعزیت کی اور اس موقع پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ اس واقعہ میں ملوث افراد سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔

’’چاہے وہ پی ٹی آئی (تحریک انصاف) کا ہو، چاہے وہ جس جماعت کا ہو۔۔۔ جو بھی اس جرم میں ملوث ہے، ہم پورا زور لگائیں گے اُسے پکڑوانے میں، یعنی کسی کو بخشیں گے نہیں۔‘‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ مثبت بات یہ ہے کہ ملک میں تمام ہی حلقے ’’چاہے وہ دینی لوگ ہوں، چاہے سیاسی لوگ ہوں، سب متفق ہیں کہ جن لوگوں نے یہ جرم کیا ہے اُن کو سزا دی جائے۔‘‘

اُدھر صوبہ خیبر پختونخواہ پولیس نے اب تک کی تفتیش سے متعلق ایک رپورٹ منگل کو سپریم کورٹ میں جمع کروا دی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس واقعہ کا از خود نوٹس لے رکھا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخواہ پولیس کے مطابق اب تک 20 سے زائد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جن میں طالب علم اور یونیورسٹی کے عملے کے افراد بھی شامل ہیں۔

گرفتار کیے ایک ملزم وجاہت نے اپنے ’’اعترافی بیان‘‘ میں کہا کہ اُنھیں مبینہ طور پر یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ وہ تقریر میں یہ کہیں کہ مشال اور اُن کے دوست توہین مذہب کے مرتکب ہوئے ہیں۔

لیکن یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے تاحال اس بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

گزشتہ جمعرات مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشتعل افراد نے توہین مذہب کے الزام میں ایک طالب علم مشال خان کو تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا جب کہ دو دیگر طالب علم عبداللہ اور زبیر زخمی ہو گئے تھے۔

ایک روز قبل صوبہ خیبر پختونخواہ کی پولیس کے سربراہ صلاح الدین محسود نے کہا تھا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں قتل کیے گئے طالب علم مشال خان کے علاوہ اُن کے دو ساتھیوں عبداللہ اور زبیر پر عائد الزامات سے متعلق تاحال کوئی ثبوت نہیں ملا۔

XS
SM
MD
LG