امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ سفارتی آداب سے متعلق بین الاقوامی ویانا کنونشن کے تحت پاکستانی حکام نے جن چار ٹرکوں کو طورخم کے راستے افغانستان جانے کی اجازت دی ہے ان میں کابل میں امریکی سفارت خانے کے لیے تعمیراتی اور دفتری کام کاج سے متعلق سامان لدا ہوا تھا۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی ایک ترجمان اروشا رانا نے وائس آف امریکہ کو بتایا سفارتی کارگو کو سرحد عبور کرنے کی اجازت دینا ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
’’ہمیں بہت خوشی ہوئی ہے کہ سفارتی کارگو کے یہ چار کنٹینرر افغانستان تک پہنچے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کے سفارت خانے میں تعمیرات ہو رہی ہیں اور ان کنٹینرز میں بلڈنگ سپلائی تھی ۔ بہت سے سفارتی کارگو کے کنٹینرز ابھی بھی یہاں پاکستان میں ہیں، ہم کہتے ہیں کہ ڈپلومیٹک کارگو کے ان کنٹنیرز کو افغانستان تک پہنچانے کی سہولت مل جائے۔‘‘
انھوں نے توقع ظاہر کی کہ پاکستان میں موجود لاتعداد دیگر ایسے کنٹینرز کو بھی جلد افغانستان جانے کی اجازت مل جائے گی۔
امریکی سفارت خانے کی ترجمان نے واضح کیا کہ سفارتی کارگو کا نیٹو کے لیے رسد لے جانے والے قافلوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ امریکہ کے خصوصی ایلچی مارک گروسمین کے حالیہ دورے میں ان کے ہمراہ آنے والے امریکی ماہرین کی ایک خصوصی ٹیم اس وقت بھی پاکستان میں موجود ہے اور نیٹو سپلائی لائن کی بحالی پر پاکستانی عہدے داروں کے ساتھ اُن کے مذاکرات جاری ہیں۔
’’ویانا کنونشن کے حوالے سے ڈپلومیٹک کارگو کی اجازت ہمیں پاکستانی حکومت سے ملی ہوئی ہے، میں کہنا چاہوں گی کہ یہ نیٹو سپلائی والے کنٹینرز نہیں تھے۔ نیٹو سپلائی اب بھی بند ہیں مگر یہاں پاکستان میں امریکہ سے پوری ٹیم آئی ہوئی ہے جو اب بھی پاکستانی حکومت سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے ان نیٹو سپلائی لائنز کے بارے میں۔‘‘
26 نومبر کو سلالہ کی دو فوجی چوکیوں پر نیٹو کے مہلک فضائی حملے کے بعد پاکستان نے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے لیے رسد لے جانے والے قافلوں پر اپنی سرحد بند کردی تھی۔ پاکستانی عہدے داروں کے بقول امریکی سفارتی کارگو کے کنٹینرز کو بھی چھ ماہ بعد پہلی مرتبہ افغان سرحد عبور کرنے کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ ایسے سامان کی ترسیل پر بھی اب تک پابندی عائد تھی۔
اُدھر شکاگو میں نیٹو سربراہ کانفرنس سے خطاب کے لیے پاکستانی صدر آصف علی زرداری بھی امریکہ پہنچ گئے ہیں۔
افغانستان کے مستقبل پر اس دو روزہ اجلاس میں 28 رکن ممالک کے علاوہ 30 سے زائد اقوام عالم اور بین الاقوامی تنظیموں کے رہنما بھی شرکت کریں گے۔
نیٹو نے صدر زرداری کو اجلاس میں شرکت کرنے کا دعوت نامہ منگل کے روز دیا تھا تاہم پاکستانی رہنماؤں کے بقول شرکت کی دعوت غیر مشروط ہے اور اس کا نیٹو کی سپلائی لائن کھولنے یہ نہ کھولنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
امریکہ میں پاکستانی سفیر شیری رحمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سلالہ چوکیوں پر حملے پر امریکی معافی کے مطالبے سے پاکستان دستبردار نہیں ہوا ہے۔ ان کے بقول نیٹو سپلائی لائن کی بحالی سے متعلق فیصلہ بھی ابھی ہونا باقی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان اس معاملے پر بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔
اس بات چیت میں پاکستانی حکام نیٹو کے لیے رسد لے جانے والے ٹرکوں پر فی کنٹینر 2500 ڈالر ٹیکس کا مطالبہ کررہے اور انھوں نے اس میں کمی بیشی کا عندیہ بھی دیا ہے ۔ تاہم سپلائی لائن پر پابندی سے قبل روزانہ اوسطاً تین سو ٹرک پاکستان کے راستے افغانستان جارہے تھے اوران پر معمول کا ٹول ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا جو فی ٹرک چند ہزار روپے تھا۔ اخباری اطلاعات کےمطابق امریکی حکام یہ بھاری محصولات ادا کرنے سے گریزاں ہیں اور بظاہر اسی وجہ سے سپلائی لائن کی بحالی میں تاخیر ہورہی ہے۔