پاکستان نے عندیہ دیا ہے کہ اس کی سرزمین کے راستے نیٹو افواج کے لیے رسد لے جانے والے قافلوں کو مفت راہداری کی سہولت فراہم نہیں کی جائے گی۔
منگل کو وزیر دفاع احمد مختار نے سکھر میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ نیٹو افواج کے لیے رسد لے جانے والے تقریباً 3000 ٹرک روزانہ ان کے ملک کی سرزمین سے گزر کر افغانستان جا رہے تھے۔ ’’ وہ بغیر پیسے دے کر چلے جاتے تھے اب ہم ان سے اس کا کرایہ لیں گے تاکہ اس رقم سے سڑکوں کی مرمت کی جا سکے۔‘‘
انھوں نے بتایا کہ سپلائی کی بحالی کے بارے میں نیٹو سے بات چیت جاری ہے۔ ’’(لیکن) جو بھی سڑکیں اور راستے استعمال کرے گا اس کو پیسے دینا ہوں گے۔ سڑکیں بار بار ٹوٹتی ہیں اور ہمارا بہت پیسا لگتا ہے۔‘‘
26 نومبر کو مہمند ایجنسی میں سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے فصائی حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستان نے فوری طور پر افغانستان کے ساتھ طورخم اور چمن کی سرحد بند کردی تھی جس کی وجہ سے اتحادی افواج کو رسد کی فراہمی تاحال معطل ہے۔
پاکستانی پارلیمان میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے حالیہ دنوں میں یہ مطالبات بھی زور پکڑ چکے ہیں کہ پاکستانی فوجیوں پر حملوں کی پاداش میں مستقبل میں نیٹو کو رسد کی ترسیل کے لیے بلامعاوضہ راہداری نا دی جائے۔
حکومت پاکستان اس موقف پر ڈٹی ہوئی کہ امریکہ اور نیٹو کےساتھ تعاون کی نئی شرائط کی پارلیمان سے منظوری کے بعد ہی پاکستان کے راستے رسد کی ترسیل کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔
افغانستان میں تعینات بین الاقومی اتحادی افواج کے نمائندوں کے بقول سامان رسد کی ترسیل کی جلد از جلد بحالی نا صرف نیٹو بلکہ خود پاکستان کے بھی اقتصادی مفاد میں ہے۔
امریکی فوج نے مہمند ایجنسی کی سرحدی چوکی پر حملے کے بارے میں اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ناقص رابطے اس حملے کی وجہ بنے۔ امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جیمز میٹس کے بقول دونوں ملکوں کو سرحدوں پر باہمی رابطوں کو موثر بنانا ہوگا تاکہ اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔
پاکستانی فوج نے نیٹو تحقیقات کی اب تک کی تفصیلات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں حقائق کا فقدان ہے تاہم ابھی تک باضابطہ طور پر فوج یا حکومت کی طرف سے مفصل ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔