ترکی کے وزیرِ اعظم رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ نیٹو سپلائی لائنز کی بحالی کا فیصلہ پاکستان نے کرنا ہے لیکن اُن کا ملک چاہے گا کہ فریقین اس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کریں۔
اُنھوں نے یہ بیان اسلام آباد میں منگل کو پاک ترک اعلیٰ سطحی تعاون کونسل کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا۔
’’فیصلے کا اختیار پاکستان کے پاس ہے اور ہمیں اس معاملے پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیئے۔ البتہ نیٹو کے رکن کی حیثیت سے ہم (ترکی) یہ تجویز دیں گے کہ اس تنازعہ کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ 26 نومبر کو پاک افغان سرحد پر سلالہ چوکی پر نیٹو کے حملے میں دو درجن پاکستانی فوجی شہید ہوئے اور پاکستانی قیادت نے بتایا کہ اُنھیں اُمید ہے کہ امریکہ اس واقعے پر معافی مانگے گا۔ ’’یہ واقع بالکل واضح ہے۔‘‘
اس موقع پر پاکستانی وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور نیٹو کے ساتھ اشتراک عمل کی شرائط کے از سر نو تعین کے لیے پارلیمان کے مرتب کردہ رہنما اصولوں کی روشنی میں بات چیت جاری ہے۔
’’ہم پوری دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں اور پاکستان افغان مسئلے کا نہیں بلکہ اس کے حل کا حصہ ہے۔ مستحکم، خودمختار اور خوشحال افغانستان حود ہمارے مفاد میں ہے ... دنیا کو پاکستان کی قربانیوں کا احساس ہونا چاہیئے اور ہماری پارلیمان کی شفارشات کی روشنی میں جو مذاکرات ہوں گے وہ دیرپا بھی ہوں گے اور اُنھیں عوام کی تائید بھی حاصل ہوگی۔‘‘
گزشتہ ماہ منظور کی گئی پارلیمان کی متفقہ قرار داد میں سلالہ حملے پر غیر مشروط امریکی معافی اور عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر ڈرون حملوں کی فی الفور بندش کے مطالبات سر فہرست ہیں۔
لیکن امریکی حکام حالیہ دنوں میں یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ امریکہ پاکستان سے معافی نہیں مانگے گا کیوں کہ اس سے رواں سال ہونے جا رہے صدارتی انتخابات میں مسٹر اوباما اور ان کی جماعت کی پوزیشن کمزور ہو گی۔
اُدھر منگل کو پاک ترک اعلیٰ سطحی کونسل کے اجلاس میں دونوں مسلم ممالک کے حکام نے دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے سے متعلق اُمور کا جائزہ لیا، جس کے بعد قابل تجدید توانائی، شہری ترقی اور تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں نو معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔
ترک وزیرِ اعظم نے کہا کہ اُن کا ملک رواں سال کے اواخر تک دوطرفہ تجارت کے سالانہ حجم کو موجودہ تقریباً ایک ارب ڈالر سے بڑھا کر دو ارب ڈالر سالانہ کی سطح پر پہنچانا چاہتا ہے۔ مگر اُن کا کہنا تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے پاکستان میں استحکام ناگزیر ہے۔