پاکستان، نیپال اور میانمار نے اطلاعات کے مطابق چینی کمپنیوں کے ساتھ بجلی کی پیداوار کے مجوزہ منصوبوں کو یا تو منسوخ کر دیا ہے یا فی الوقت ان سے الگ ہو گئے ہیں۔
ان تین منصوبوں کی مالیت لگ بھگ 20 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے۔
چین کی ایک کمپنی نے پاکستان میں دیامر بھاشا ڈیم کے لیے 14 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیش کش کی تھی لیکن اطلاعات کے مطابق حکومتِ پاکستان نے سخت مالی شرائط کو وجہ بناتے ہوئے یہ پیشکش قبول کرنے سے معذرت کر لی۔
پاکستان کی طرف سے باضابطہ طور پر اس پیشکش کو منظور نہ کرنے کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا گیا۔ البتہ اطلاعات کے مطابق پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ایک اجلاس میں پانی و بجلی کے ادارے ’واپڈا‘ کی طرف سے کمیٹی کو بتایا گیا تھا کہ چینی کمپنی کی طرف سے سخت شرائط کے سبب اس مجوزہ پیشکش پر آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا۔
چینی کمپنی میں مالی بے ضابطگیوں کی بنا پر نیپال کے نائب وزیراعظم نے 2.5 ارب ڈالر کے پن بجلی کے منصوبے کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔
میانمار نے تین سال قبل 3.6 ارب ڈالر مالیت کے چین کی تعاون سے تعمیر کیے جانے والے ڈیم پر کام روک دیا تھا۔ گزشتہ ماہ میانمار کی حکومت نے کہا کہ وہ چین کے تعاون سے ملک میں پن بجلی کے منصوبوں میں دلچپسی نہیں رکھتا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ تین ممالک کی طرف سے ان فیصلوں سے بیجنگ کے ’ون بلیٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کو دھچکا لگ سکتا ہے، کیوں کہ اس کے تحت بیجنگ کئی ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کا منصوبہ رکھتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ، معاشی طور پر کمزور ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ ان منصوبوں کی لاگت اور اس سے جڑی مالی شرائط سخت ہیں۔
پاکستان اور نیپال کی طرف سے منصوبوں کی منسوخی کے بارے میں چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان چینگ سوآنگ کا کہنا ہے کہ وہ ’’اس بارے میں آگاہ نہیں ہیں۔‘‘
پاکستان پارلیمانی سیکرٹری برائے اقتصادی اُمور رانا افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھاشا ڈیم ’سی پیک‘ منصوبے کا حصہ تھا ہی نہیں، اس لیے اُن کے بقول اس سے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
’’میں آپ کو بڑے واضح طور پر بتانا چاہ رہا ہوں کہ ابھی تک دیامیر بھاشا کا جو پراجیکٹ ہے وہ سی پیک کا حصہ نہیں بنا ہے۔۔۔۔ ایک دو کمپنیوں نے بریفنگ دی تھی اور رقم کے تعین کے حوالے سے اعدادوشمار بھی سامنے آئے تھے۔۔۔۔ ہماری وزارت برائے توانائی اور واٹر اینڈ پاور سیکٹرز مل کر اس کو اسٹڈی کر رہے ہیں کہ اس کو کیسے بنانا ہے۔‘‘
رانا افضل کہتے ہیں کہ ’سی پیک‘ سے جڑے منصوبوں پر مفصل بحث کے بعد اُن کے لیے وسائل مختص کیے جاتے ہیں۔
اقتصادی اُمور کے تجزیہ کار عابد سہلری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ دیامیر بھاشا کے بارے میں جو فیصلہ کیا گیا وہ ملکی مفاد کو دیکھتے ہوئے کیا گیا۔
’’حکومت کے حکومت سے جو معاہدے ہوتے ہیں تو اس میں ہر پارٹی کو اپنے مفادات دیکھنے ہوتے ہیں۔ اپنا انٹرسٹ مقدم رکھنا ہوتا ہے۔۔۔ یقینی طور پر پاکستان سی پیک کا حصہ تو ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر معاہدے کو چاہے وہ ملک کے مفاد میں ہے یا نہیں اس پر عمل درآمد کیا جائے۔۔۔۔ بنیادی طور پر جب دیامیر بھاشا ڈیم کو دیکھا گیا کہ شاید یہ پاکستان کے مفادات کا اس طرح سے تحفظ نہیں کر پا رہا تھا، تو اس سے پاکستان علیحدہ ہو گیا اور میرا نہیں خیال کہ اس سے سی پیک پر کوئی اثر پڑے گا۔‘‘
اسلام آباد اور بیجنگ ایک دوسرے کے قریبی اتحادی ہیں اور اربوں ڈالر مالیت کے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے ’سی پیک‘ پر بھی کام جاری ہے۔
پاکستان کے منصوبہ بندی کمیشن کے نائب چیئرمین سرتاج عزیز نے حال ہی میں کہا تھا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کے تحت مجموعی سرمایہ کاری 60 ارب ڈالر تک بڑھ گئی ہے۔
گزشتہ ماہ ہی ’سی پیک‘ سے متعلق جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی ’جے سی سی‘ کا ایک اجلاس اسلام آباد میں ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔
’سی پیک‘ چینی حکومت کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ پروگرام کا حصہ ہے اور توقع ہے کہ اس سے منسلک تمام منصوبے 2030ء تک مکمل ہوجائیں گا۔
چین پاکستان اقتصادی راہدای سے جڑے منصوبوں کے سلسلے میں بڑی تعداد میں چینی شہری بھی پاکستان آ رہے ہیں جو ملک کے مختلف علاقوں میں کام کر رہے ہیں۔
جب کہ آنے والے مہینوں اور برسوں میں ان منصوبوں پر کام کے لیے پاکستان آنے والے چینی شہریوں کی تعداد میں مزید اضافہ متوقع ہے۔