پاکستان کی حکومت نے ملک میں جاری اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے نئی اقتصادی ٹیم بنائی ہے۔ جس میں حفیظ شیخ مشیر خزانہ ہیں، ڈاکٹر رضا باقر کو گورنر سٹیٹ بینک اور شبر زیدی کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔
کیا یہ ٹیم پاکستان کو ان شديد مالی مشکلات سے نکال سکے گی جس میں وہ اس وقت گرفتار ہے۔ اس بارے میں ماہرین اور مبصرین کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ دو ماہرین معاشیات ورلڈ بینک کے سابق عہدیدار شاہد جاوید برکی اور پاکستان کے ایک سابق نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بھی اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس بارے میں اظہار خیال کیا ہے
شاہد جاوید برکی کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک میں ان کا تجربہ یہ ہے کہ بعض بڑے ممالک ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے فیصلوں پر اثر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ان اداروں کے سینئر منیجرز کافی با اختیار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان پر دباؤ اس وقت پڑتا ہے جب وہ کمزور ہوں۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ کے سابقہ لوگوں کو لانا حکومت کی ایک شعوری کوشش ہے جو کہ ان اداروں سے زیادہ بہتر آگاہی رکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر مشیر خزانہ اور نئے گورنر اسٹیٹ بینک کو جانتے ہیں۔ دونوں ہی خود مختار سوچ کے حامل ہیں اور یہ امکان نہیں ہے کہ وہ ان میں سے کسی بھی ادارے سے متاثر ہوں گے۔
شاہد جاوید برکی نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ان کی شہرت اور مہارت کے سبب لایا گیا ہے نہ کہ اس مقصد کے لیے کہ وہ ملک میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا اثر و رسوخ لائیں۔
تاہم انہوں نے کہا کہ اصل فرق اس وقت پڑے گا جب پاکستان سیاسی طور پر اتنا مستحکم ہو جائے کہ وہ صحیح معنوں میں بنیادی دھانچے میں تبدیلیاں لا سکے۔
ایک اور سوال کے جواب میں کہ کیا فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین کی تبدیلی سے ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ٹیکس وصولی کا مطلوبہ ہدف حاصل کرنے میں واقعی مدد ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین کی تبدیلی سے اتنا فرق نہیں پڑے گا کیونکہ تبدیلی صرف سیاست دان ہی لا سکتے ہیں۔ البتہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں جو کرپشن ہے وہ اس کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔ اس سے فرق پڑے گا لیکن اصل میں فرق اسی وقت پڑے گا جب امیروں کو ٹیکس دینے پر مجبور کر دیا جائے۔
ڈاکٹر سلمان شاہ نے مشیر خزانہ اور نئے گورنر اسٹیٹ بینک کے بارے میں کہا کہ دونوں کافی تجربہ کار ہیں اور دونوں عالمی اداروں کو اور ان کے اندرونی طریقہ کار سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اگر کوئی کمی ہو گی تو پاکستان کے بارے میں ان کی معلومات میں کمی ہو سکتی ہے کیونکہ یہاں ان کا تجربہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے عالمی سطح پر بھی رابطے ہیں اور وہ پاکستانی بھی ہیں اور یہ ایک اچھا امتزاج ہو گا۔
انہوں نے بعض مبصرین کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ انہیں کسی خاص مقصد کے لیے لایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی باتیں اور سازشی کہانیاں تو چلتی ہی رہتی ہیں، جب ان کا پروگرام سامنے آئے گا تو صحیح معنوں میں پتا چلے گا کہ وہ ملک کے لیے اچھا ہے یا برا۔
ڈاکٹر سلمان کا کہنا تھا کہ بہر صورت پاکستان کو اصلاحات کی تو ضرورت ہے کیونکہ مالیات کے حوالے سے اسے کئی مسائل درپیش ہیں جیسے کہ توازن ادائیگی کا مسئلہ ہے۔ مالی بحران کا مسئلہ ہے یا اسی قسم کے اور دوسرے مسائل ہیں۔
ایف بی آر کے نئے چیئرمین کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں کارپوریٹ سیکٹر کا بہت اچھا تجربہ ہے۔ ان کی شہرت اچھی ہے۔ امید ہے کہ وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے جو بلا شبہ ایک مشکل کام ہو گا۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔