کراچی کے قریب چین کے اشتراک سے تعمیر ہونے والے جوہری بجلی گھر 'کے ٹو' میں جوہری ایندھن ڈالنے کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے مطابق 1100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے اس ایٹمی بجلی گھر منصوبے میں منگل کو جوہری ایندھن ڈالنے کا عمل شروع ہوا۔ اس موقع پر پاکستان اور چین کے اعلٰی حکام بھی موجود تھے۔
پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق 'کے ٹو' جوہری توانائی کا پلانٹ، خودکار حفاظتی نظام سے آراستہ تھرڈ جنریشن جوہری پاور پلانٹ ہے۔
بیان کے مطابق اس جوہری بجلی گھر کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز اگست 2015 میں ہوا اور یہ بجلی گھر اپریل 2021 میں بجلی کی پیداوار شروع کر دے گا۔ لیکن اس سے قبل باضابطہ طور پر اس جوہری بجلی گھر کے حفاظتی نظام کی مکمل چانچ پڑتال کی جائے گی۔
یاد رہے کہ چین کے اشتراک سے کراچی کے قریب ہی اسی طرز کے ایک اور جوہری بجلی گھر 'کے تھری' پر کام جاری ہے جس سے 2021 کے آخر میں بجلی کی پیداوار شروع ہو جائے گی۔
تجزیہ کار ور ماہر طبیعات پروفیسر پرویز ہودبھائی کا کہنا ہے ہر بجلی گھر کو چلانے کے لیے ایندھن کی ضرورت ہوتی اسی طرح ان کے بقول جوہری بجلی گھر کو چلانے کے لیے جوہری ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پرویز ہودبھائی نے کہا کہ کراچی میں چلنے والے جوہری بجلی گھر میں یورینیم کی شرح پانچ سے سات فی صد تک ہوتی ہے۔ ان کے بقول جب یہ جوہری ایندھن، جوہری بجلی گھر میں ڈالا جاتا ہے تو اس کے ذریعے توانائی پیدا ہوتی ہے جسے بجلی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
پرویز ہودبھائی کا کہنا ہے کہ یہ جوہری ایندھن آئندہ چار سے چھ سالوں کے لیے کافی ہو گا جس کے بعد اس ایندھن کی جگہ نیا جوہری ایندھن جوہری پلانٹ میں شامل کیا جائے گا۔
کراچی میں چین کے تعاون سے تعمیر ہونے والے بجلی گھروں کے آبادی کے قریب ہونے کی وجہ سے ان خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ کسی حادثے کی صورت میں یہ پلانٹ شہر کی آبادی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
لیکن پاکستان کی جوہری توانائی کے ادارے سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ یہ جوہری بجلی گھر اور پاکستان میں تعمیر ہونے والے دیگر جوہری بجلی گھر جوہری توانائی کے عالمی نگران ادارے ’انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی‘ (آئی اے ای اے) کے طے کردہ حفاظتی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیے گئے ہیں۔
لیکن تجزیہ کار پرویز ہودبھائی کا کہنا ہے پاکستانی حکام کے جوہری پلانٹس کے تحفظ کو یقینی اور معیاری بنانے کے دعوے اپنی جگہ لیکن دنیا کے بعض ترقی یافتہ ممالک میں بھی جوہری بجلی گھروں میں حادثات رونما ہو چکے ہیں۔ اس لیے ان بجلی گھروں میں حادثات رونما ہونے سے متعلق خدشات برقرار ر ہیں گے۔
پاکستان کے جوہری سائنس دان ثمر مبارک مند کا کہنا ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان اپنے سول جوہری پلانٹ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے مسلسل اقدامات کرتا رہا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کے جوہری بجلی گھروں کی تعمیر اور تحفظ کے لیے عالمی سطح پر طے شدہ معیار کو برقرار رکھا جاتا ہے۔
پاکستانی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ جوہری بجلی گھروں کے ذریعے بجلی کی پیداوار کو 2030 تک آٹھ ہزار میگاواٹ تک بڑھایا جائے گا۔ حکام کے مطابق ان میں سے زیادہ تر منصوبے چین کے تعاون سے مکمل کیے جائیں گے۔
لیکن تجزیہ کار پرویز ہودبھائی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔
ان کے بقول پاکستان میں شمسی توانائی، پن بجلی اور ہوا سے بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔
ان کے بقول اگرچہ ابتدائی طور پر قابلِ تجدید ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کے لیے ابتدائی اخراجات کی ضرورت ہو گی لیکن ان کا کہنا ہے کہ طویل مدت میں ایسے ذرائع سے بجلی حاصل کرنا جوہری ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کے مقابلے میں مفید رہے گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے اربوں ڈالر کے منصوبوں کے تحت پاکستان میں بنیادی ڈھانچے اور کوئلے اور پن بجلی پیدا کرنے کے کئی منصوبے یا تو مکمل ہو چکے ہیں یا ان پر کام جاری ہے۔