پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کی سلامتی شدید خطرات میں گھری ہوئی ہے جس سے نمٹنے کے لیے خطے میں تبدیلیاں ضروری ہیں۔
پیر کو اسلام آباد میں 'نیشنل سکیورٹی پالیسی' کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ناصر خان جنجوعہ نے کہا کہ افغانستان اور خطے سے متعلق امریکی پالیسی سود مند نہیں اور ان کے بقول افغانستان میں ناکامیوں کا الزام امریکہ، پاکستان پر عائد کر رہا ہے۔
"بھارت کو چین سے نمٹنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ افغانستان کو روس کو شکست دینے کے لیے منتخب کیا گیا۔ بھارت اب سیاسی، اقتصادی اور عسکری ترجیح ہے۔۔۔ بھارت افغانستان میں ترجیحی اتحادی بن گیا اور عسکری حل کو پھر سے ترجیح دی گئی۔"
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی کی جنگ میں بھاری جانی و مالی نقصان برداشت کیا اور ضرورت اس امر کی ہے کہ افغانستان میں امن و مصالحت کی کوششوں میں مدد فراہم کرنے کو ترجیح بناتے ہوئے تنازع کے خاتمے نہ کہ اسے جیتنے کی کوشش کی جائے۔
"امریکہ کو افغانستان میں ایک سیاسی عہدیدار تعینات کرنا چاہیے اتنا ہی بااختیار جتنا کہ (ان کا) عسکری کمانڈر ہے تا کہ سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔"
امریکہ انسدادِ دہشت گردی میں پاکستان کی کوششوں کی تعریف تو کرتا ہے لیکن ساتھ ہی اس کی طرف سے پھر ان مطالبات میں اضافہ ہوا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں مبینہ طور پر موجود عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کے خلاف موثر کارروائی کرے۔
گزشتہ ہفتے ہی امریکی محکمہ دفاع نے کانگریس میں افغانستان سے متعلق ایک رپورٹ جمع کرائی تھی جس میں بھی پاکستان کی حدود میں ان مبینہ پناہ گاہوں سے نمٹنے کے لیے رویے میں تبدیلی کا ذکر کیا گیا تھا۔
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کا سرحدی علاقہ القاعدہ، حقانی نیٹ ورک، لشکرِ طیبہ، تحریکِ طالبان پاکستان، داعش اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ پر واضح کر چکا ہے کہ اس نے اپنے ہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کر دیا ہے اور اگر امریکہ کے پاس کوئی قابلِ عمل معلومات ہوں تو وہ فراہم کرے، پاکستان اس پر کارروائی کرے گا۔
سیمینار سے خطاب میں مشیر قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ یہ خطہ پہلے ہی بہت تبدیل کیا جا چکا ہے اور موجودہ چینلجز سے نمٹنے کے لیے اسے دوبارہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر تباہی صرف "ایک غلطی کی دوری" پر ہے۔