وکی لیکس کے تازہ انکشافات کے مطابق پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگراموں پر امریکہ نے کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔
انگریزی روزنامے ’ڈان‘ نے مختلف ملکوں میں امریکی سفارت خانوں سے محکمہ خارجہ بھیجے گئے خفیہ سفارتی مراسلوں کے جائزے کے بعد خبر دی ہے کہ جوہری و میزائل ٹیکنالوجی سے متعلق تحقیق کرنے والے پاکستانی اداروں کی بین الاقوامی منڈی سے سازوسامان کی خریداری کی واشنگٹن نے چھان بین کی۔
انقرہ میں امریکی سفارت خانے کی ایک اعلیٰ عہدے دار نینسی میک ایلڈاونی نے 2008ء کے اوائل میں ایک خفیہ مراسلے میں ترک حکام سے اس بات چیت کی تفصیلات لکھیں جس میں ترکی سے پاکستان بھیجی جانے والی ایک مشتبہ کھیپ سے متعلق اقدامات لینے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔
مراسلے کے مطابق امریکی حکام کا ترکی سے مطالبہ تھا کہ وہ پاناما اور جاپان کی حکومتوں سے رابطہ کر کے کھیپ کو کسی بندگاہ پر منتقل کروانے کے بعد اُسے ترسیل کرنے والی کمپنی کو واپس پہنچا دیں۔
نینسی میک ایلڈاونی نے ترک حکام پر زور دیا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے غیرقانونی پھیلاؤ اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے بارے میں تحفظات کے پیش نظر ترکی کی حکومت اس کھیپ کو اس کی منزل پر پہنچنے سے روکنے کے لیے ہرممکن اقدامات کرے۔
ڈان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے چین سے پاکستان بھیجے جانے والے سازوسامان پر بھی کئی مرتبہ تحفظات کا اظہار کیا اور دسمبر 2009ء میں ایسے ہی ایک موقع پر بیجنگ نے اُس کے خدشات دور کرنے کے لیے ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
امریکہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام میں تائیوان کے کردار اور اس سلسلے میں خریدوفروخت کی بھی چھان بین کی۔
مزید برآں پاکستانی اخبار کے مطابق فرانس نے ایک مقامی کمپنی کی طرف سے پاکستان ترسیل کی جانے والی ارضیاتی تحقیق میں استعمال ہونے والے سازوسامان کی کھیپ کو روکنے کی امریکی درخواست مسترد کر دی تھی۔
جنوری 2005ء میں واشنگٹن بھیجے گئے ایک سفارتی مراسلے میں بتایا گیا کہ ایک فرانسیسی عہدے دار ڈیوڈ برٹولوٹی نے امریکی حکام کو تفصیل سے وہ محرکات بیان کیے جن کی وجہ سے فرانس نے اس کھیپ کی جانچ پڑتال نہیں کی اور نا ہی اس کی ترسیل کو روکا۔
اپریل 2008ء میں اسلام آباد میں امریکی سفیر این پیٹرسن نے پاکستان کے جوہری اور دیگر اہم ترین فوجی اثاثوں کے نگران ادارے ’اسٹریٹیجک پلانز ڈویژن‘ کے سربراہ خالد قدوائی کو بتایا کہ ایٹمی سائنس دان عبدالقدیر خان کی نقل و حرکت پر پابندیاں ختم کرنے کا ممکنہ فیصلہ امریکی حکام کے لیے ”خطرے اور پریشانی“ کا باعث بنا ہے۔
سفارتی مراسلے کے مطابق این پیٹرسن کا کہنا تھا کہ ”امریکی حکومت (عبدالقدیر) خان کی سرگرمیوں پر عائد پابندیاں ہٹانے کے سخت خلاف ہے۔“
ڈان اخبار کے مطابق امریکی سفیر نے حکمران پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری، جو بعد میں ملک کا صدر منتخب ہوگئے، سے ایک ملاقات میں پاکستان کا اقتصادی شعبے میں امریکہ پر انحصار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُس کو امریکی مفادات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔