حالیہ دونوں میں خوراک کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ عام آدمی کی قوت خرید پر براہ راست اثراندز ہوا ہے۔ روزمرہ کی خوراک میں بنیادی غذائی اشیا شامل نہ ہونے کے باعث عوام میں غذائیت کی کمی کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے ۔ ماہرین کے خیال میں ملک میں حالیہ سیلاب کے بعد کی صورتحال سے غذائی قلت کا شکار ہونے والی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
محکمہ صحت نے بین الاقوامی امدادی ادارے کے اشتراک سے قومی سطح پر غذائیت کے حوالے سے ایک تازہ سروے کیا ہے ۔ جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی 58 فیصد آبادی غذا کی کمی کا شکار ہے۔ غذائیت کی کمی سے دوچار آبادی کی اکثریت سندھ اور بلوچستان میں مقیم ہے۔
پاکستان میں اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ خوارک میں غذائی تحفظ کے ماہر صاحب حق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ملک میں غذا کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگ سستی خوراک کھانے پر مجبور ہیں اور روزمرہ کی خوراک میں دودھ گوشت انڈے اور پھل شامل نہ ہونے کے نتیجے میں غذائیت کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔
’’خوارک کی کمی کا شکار ہونے سے غذائیت کی کمی بھی ہو جاتی ہے ۔ قوت خرید کم ہونے کے باعث وہ یا تو کم خوراک کھاتے ہیں یا سستی خوراک خریدتے ہیں‘‘۔
محکمہ صحت کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رشید جمعہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ غذائیت کی کمی کے باعث بچوں میں قوت مدافعت کم ہونے لگتی ہے جس سے ٹائیفائیڈ اور پولیو جیسی مہلک بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
’’پاکستان میں کسی بھی سطح پر ماں اور بچے کی غذائیت کے حوالے سے پالیسی موجود نہیں ہے غذائی قلت کو ختم کرنے کے لیے قومی سطح کے پروگرام کی ضرورت ہے۔‘‘
قومی سروے کے مطابق ملک بھر میں تقریباً 44 فیصد بچوں کو غذائیت کی کمی کا سامنا ہے جبکہ 15 فیصد بچوں میں غذائیت کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔ غیر متوازن غذا کے استعمال کے باعث 32 فیصد بچوں کا وزن ان کی عمر کے لحاظ سے کم ہے۔