پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور میں 16 دسمبر کو اسکول پر ہونے والے ملک کے بدترین دہشت گرد حملے کا جمعہ کو ایک ماہ مکمل ہونے پر مختلف شہروں میں سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے حملے میں مرنے والوں کی یاد میں ریلیوں کا انعقاد کیا.
اس حملے میں 133 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک نے اس واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا تھا۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے سول سوسائٹی کے نمائندوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی جنہوں نے مرنے والوں کی یاد میں یہاں شمعیں روشن کیں اور انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔
ریلی میں عام شہریوں کے علاوہ قانون سازوں کی بھی ایک قابل ذکر تعداد شریک تھی۔
یہاں موجود وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں تمام فریقین متحد اور متفق ہیں اور شرپسند عناصر کو کسی قیمت پر بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔
"جسے سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے ہو سلاخوں کے پیچھے ہوگا، اسے کوئی نہیں روک سکتا۔"
مختلف سماجی تنظیموں نے نہ صرف ملک بھر ایسے اجتماعات کا اہتمام کیا بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں میں بھی پشاور حملے کے متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے تقاریب بھی منعقد کی جارہی ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے تمام پارلیمانی سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کے ساتھ مل کر متفقہ طور پر ایک قومی لائحہ عمل تشکیل دیا جس کا مقصد ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کرنا تھا۔
پاکستانی فوج گزشتہ جون سے شمالی وزیرستان میں تو شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کر رہی تھی لیکن پشاور اسکول حملے کے بعد اس کا دائرہ وسیع کر دیا گیا اور پورے ملک میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر دہشت گردوں اور ان کے معاونین کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی گئیں۔
16 دسمبر کے واقعے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ چھ سال سے پاکستانی جیلوں میں دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت کے مرتکب قیدیوں کی پھانسیوں پر عائد پابندی ختم کر دی جس کے بعد سے اب تک ڈیڑھ درجن مجرموں کو تختہ دار پر لٹکایا جا چکا ہے۔
پاکستان ایک دہائی سے زائد عرصے تک انسداد دہشت گردی کی بین الاقوامی جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے لیکن اب اس کے عہدیدار دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملک پاکستان میں شدت پسندوں اور ریاستی مخالف عناصر کے خلاف بین الاقوامی تعاون حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
پشاور اسکول حملے کے بعد فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر کے ہمراہ کابل کا ہنگامی دورہ کیا اور وہاں افغان سیاسی و عسکری قیادت اور بین الاقوامی افواج کے کمانڈر سے ملاقات کر کے انھیں ایسے عناصر کے خلاف تفصیلات فراہم کیں جو افغان علاقوں میں رہ کر پاکستان مخالف کارروائیاں کر رہے ہیں۔
امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کوششوں کو سراہا ہے۔ رواں ہفتے ہی اس نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
پشاور اسکول پر حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے ہی قبول کی تھی۔