پاکستان کے قبائیلی علاقوں میں حکومت کی رٹ کو چیلینج کیے جانے کا سلسلہ کافی عرصے سے جاری تھا ۔ مگر یہ حقیقت دنیا کے سامنے اس وقت آئی جب پاکستان کے سوئٹزر لینڈ سوات میں مقامی طالبان نے حکومت کی عملداری کو چیلنج کیا۔ ٹی ٹی پی یعنی تحریکِ طالبان پاکستان کی طرف سے حکومت کی رٹ کو چیلنج کیے جانے کے بعد حکومت پاکستان نے پہلا بڑا کاؤنٹر انسرجنسی آپریشن سوات میں شروع جسے عوام کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ سوات اور اس سے ملحقہ علاقوں سے طالبان کو نکال تو دیا گیا۔ مگر فوج کی طرف سے کی جانے والی کاروائیوں میں مقامی ذراع ابلاغ کے مطابق عام شہریوں کے جان و مال کو بھی نقصان پہنچا۔ اس آپریشن کے بعد جہاں ایک طرف فوج اور حکومت کو بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی تو دوسری طرف عام شہریوں کے تحفظ کے لیے موزوں اقدامات نہ کیے جانے پر تنقید بھی ہوئی۔ لڑائی کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کے مسائل ابھی ختم نہ ہوئے تھے کہ سیلاب نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ وہ لوگ جو پہلے ہی غربت، بے روزگاری، امن و عامہ کی خراب صورتِ حال، تعلیم اور صحت کی سہولیات میں کمی کے باعث مایوسی میں مبتلا تھے۔ اب سیلاب سے ہونے والی تباہی کے بعد ایک مرتبہ پھر حکومت کی طرف دیکھیں گے۔
تجزیہ کار اور دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ حکومت مخالف جذبات کو ہوا کمزور سیاسی اور معاشی حالات سے ملتی ہے۔ اس کا مقابلہ فوج یا طاقت سے نہیں بلکہ موثر حکومت اور مقامی آبادی کی فلاح و بہبود کے اقدامات سے کیا جاتا ہے۔
ملک کے اندر سے اٹھنے والی حکومت مخالف تشدد پسندانہ کاروائیوں کی وجوہات کیا ہیں اور ان کا مقابلہ کیسے کیا جانا چاہیے، اس دوران کن چیزوں کو یقنی بنایا جانا چاہیے؟ یہ جاننے کے لیے دیکھیے ہماری خصوصی منی ڈاکیومنٹری کاونٹر انسرجنسی۔