رسائی کے لنکس

صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے سے ہٹائیں گے۔ اپوزیشن


چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی۔ فائل فوٹو
چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی۔ فائل فوٹو

پاکستان میں متحدہ اپوزیشن نے چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ان کے عہدے سے ہٹانے اور ان کی جگہ متفقہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

صادق سنجرانی کی اصل پہچان ایک کاروباری شخصیت کی ہے۔ ان کا عوامی سیاست سے کبھی زیادہ تعلق نہیں رہا۔ ان کا کاروبار بلوچستان کے علاوہ دبئی اور دیگر ممالک میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ صادق سنجرانی اپنی کاروباری رفاقتوں کی وجہ سے ہی سال 1998 میں میاں نواز شریف کے کوآرڈینیٹر رہے۔ لیکن نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد وہ اپنے کاروبار میں مصروف ہو گئے اور یوں دس سال تک سیاست سے دور رہے۔

جب 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو انھیں یوسف رضا گیلانی کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا اور وہ پانچ سال تک اسی منصب پر فائز رہے۔

بلوچستان کے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے چیئرمین کے لیے انوارالحق کاکڑ اور صادق سنجرانی کے نام پیش کیے تھے، جن میں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے صادق سنجرانی کا نام منظور کیا۔ اس کے بعد ان کی نامزدگی کا اعلان کیا گیا۔

صادق سنجرانی کو رضا ربانی کی چئیرمین شپ کی مدت مکمل ہونے کے بعد چئیرمین منتخب کیا گیا تھا۔ اس وقت کی نمبر گیم میں پیپلز پارٹی اکیلی چئیرمین شپ حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف کی معاونت سے اس انتخاب میں ڈپٹی چئیرمین پیپلز پارٹی سے اور چئیرمین چھوٹے صوبے سے بنایا گیا اور اس میں کامیابی صادق سنجرانی کو ملی، جو اب ان کے ہاتھوں سے نکلتی نظر آ رہی ہے۔

چئیرمین سنیٹ کے لیے کتنے ووٹ درکار ہیں

104 ارکان پر مشتمل ایوانِ بالا یعنی سینیٹ میں چئیرمین کو جیتنے کے لیے 53 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ چیئرمین کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے۔

سال 2018 کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ کے پاس 33 ارکان موجود تھے لیکن اتحادیوں کی موجودگی میں ان کے امیدوار راجہ ظفر الحق 46 ووٹ حاصل کر سکے جبکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدوار صادق سنجرانی نے 57 ووٹ حاصل کیے تھے۔

موجودہ صورتحال میں اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن کے پاس چئیرمین سینیٹ کو ہٹانے کی نمبر گیم باآسانی پوری ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 20 اور مسلم لیگ ن کی 33 ہے۔ اس کے علاوہ اے این پی کی ایک، جے یو آئی ف کی 4، نیشنل پارٹی کی 5 اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کی دو نشستیں ہیں۔ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف کے پاس سینیٹ کی 14 نشستیں ہیں اور اتحادیوں کو ساتھ ملانے کے باوجود وہ نمبر گیم میں بہت پیچھے ہیں۔

اپوزیشن کے مقاصد کیا ہیں

اس وقت اپوزیشن حکومت پر دباؤ بڑھانے کی خواہش رکھتی ہے اور چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی جو تحریک انصاف کی معاونت سے چئیرمین بنے تھے ان کے جانے کے بعد اپوزیشن کا چئیرمین آنے سے حکومتی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر قانون سازی کے لیے حکومت سینیٹ میں دباؤ میں آ سکے گی۔

اپوزیشن کی تیاریاں

اپوزیشن نے نئے چئیرمین کے انتخاب کے لیے ایک رہبر کمیٹی بھی تشکیل دی ہے کیونکہ اس عہدے کے لیے بہت سے امیدوار سامنے آ رہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے صادق سنجرانی کا متبادل بلوچستان سے لینے کی مخالفت کی ہے جبکہ پانچ نشستوں کے ساتھ نیشنل پارٹی نے چیرمین سینیٹ بلوچستان سے ہی لینے پر زور دیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ چئیرمین سینیٹ کا امیدوار ہماری جماعت سے لیا جائے۔ لیکن ابھی تک اپوزیشن میں اس پر اتفاق نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے معاملہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG