اسلام آباد —
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے قانون سازوں، رہنماؤں اور کارکنوں نے پیر کو الیکشن کمیشن کے حق اور انتخابات کے بر وقت انعقاد کے لیے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے علامتی دھرنا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مظاہرے کا مقصد ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔
مظاہرین کی جانب سے موجودہ الیکشن کمیشن کے ڈھانچے پر اعتراضات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ کمیشن کو آزادانہ طور پر شفاف انتخابات کے لیے اقدامات اٹھانے کا اختیار دیا جائے۔
حزب اختلاف کی طرف سے یہ مظاہرہ تحریک منہاج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے موجودہ الیکشن کمیشن کی ہیت پر تنقید اور کمیشن کے تحلیل کے مطالبے کے بعد کیا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز اور جماعت کے صدر نواز شریف کے بھتیجے حمزہ شریف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئندہ انتخابات کو معطل کرنے کے لیے سازشیں کی جا رہی ہیں اور الیکشن کمیشن کو متنازع بنانے کی بھی کوشش اسی کی ایک کڑی ہے۔
مگر ان کا کہنا تھا اس وقت ملک میں مکمل سیاسی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کسی بھی صورت نہ تو جمہوری نظام کو پٹڑی سے ہٹنے دیا جائے گا اور نہ ہی انتخابات میں کوئی تاخیر برداشت کی جائے گی۔
’’جب تک انتخابات نہیں ہوتے ایسے لوگ آتے رہیں گے جو اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں اور کہیں اور سے ہدایات حاصل کر کے غیر آئینی مطالبات کرتے ہیں۔ مگر ہماری جماعت جمہوری نظام کے خلاف تمام ساشوں کے خلاف کھڑی رہے گی۔‘‘
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منتخب سیاسی حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرنے جا رہی ہے اور انتخابات متفقہ طور پر مقرر کردہ چیف الیکشن کمشنر کی زیر نگرانی مئی میں متوقع ہیں۔
مگر ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ کمیشن کے چار اراکین صوبائی حکومتوں کے نامزد کردہ ہیں اس لیے وہ انتخابات میں متعلقہ حکمران جماعتوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے انہوں نے گزشتہ ماہ تحریک کے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا اور حکومت کو مجبور کیا کہ ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے ان کی منظوری کے لیے مذاکرات کریں۔
حمزہ شریف نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر چار اراکین کی تقرری کے لیے آئینی اور جمہوری طریقہ کار اپنایا گیا۔
’’ایک شخص جو کہ اس (انتخابی) عمل کا حصہ نہیں اور نہ ہی اس کی (پاکستانی) شہریت ہے اس کے کہنے پر 18 کروڑ عوام کے نمائندوں کے فیصلے کو فوقیت دی جائے یہ کہاں کا جنگل کا قانون ہے۔‘‘
حکومت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا قیام آئین کے تحت ہوا ہے اور اس کی تحلیل پارلیمان میں دو تہائی اکثریت کے ذریعے ترمیم کے بغیر ممکن نہیں اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں یہ اکثریت موجود نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مظاہرے کا مقصد ملک میں جمہوری نظام کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانا ہے۔
مظاہرین کی جانب سے موجودہ الیکشن کمیشن کے ڈھانچے پر اعتراضات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ کمیشن کو آزادانہ طور پر شفاف انتخابات کے لیے اقدامات اٹھانے کا اختیار دیا جائے۔
حزب اختلاف کی طرف سے یہ مظاہرہ تحریک منہاج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے موجودہ الیکشن کمیشن کی ہیت پر تنقید اور کمیشن کے تحلیل کے مطالبے کے بعد کیا گیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز اور جماعت کے صدر نواز شریف کے بھتیجے حمزہ شریف نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئندہ انتخابات کو معطل کرنے کے لیے سازشیں کی جا رہی ہیں اور الیکشن کمیشن کو متنازع بنانے کی بھی کوشش اسی کی ایک کڑی ہے۔
مگر ان کا کہنا تھا اس وقت ملک میں مکمل سیاسی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کسی بھی صورت نہ تو جمہوری نظام کو پٹڑی سے ہٹنے دیا جائے گا اور نہ ہی انتخابات میں کوئی تاخیر برداشت کی جائے گی۔
’’جب تک انتخابات نہیں ہوتے ایسے لوگ آتے رہیں گے جو اسلام آباد میں دھرنا دیتے ہیں اور کہیں اور سے ہدایات حاصل کر کے غیر آئینی مطالبات کرتے ہیں۔ مگر ہماری جماعت جمہوری نظام کے خلاف تمام ساشوں کے خلاف کھڑی رہے گی۔‘‘
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منتخب سیاسی حکومت اپنے پانچ سال مکمل کرنے جا رہی ہے اور انتخابات متفقہ طور پر مقرر کردہ چیف الیکشن کمشنر کی زیر نگرانی مئی میں متوقع ہیں۔
مگر ڈاکٹر طاہر القادری کا کہنا ہے کہ کمیشن کے چار اراکین صوبائی حکومتوں کے نامزد کردہ ہیں اس لیے وہ انتخابات میں متعلقہ حکمران جماعتوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے انہوں نے گزشتہ ماہ تحریک کے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ اسلام آباد میں دھرنا بھی دیا اور حکومت کو مجبور کیا کہ ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے ان کی منظوری کے لیے مذاکرات کریں۔
حمزہ شریف نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اور دیگر چار اراکین کی تقرری کے لیے آئینی اور جمہوری طریقہ کار اپنایا گیا۔
’’ایک شخص جو کہ اس (انتخابی) عمل کا حصہ نہیں اور نہ ہی اس کی (پاکستانی) شہریت ہے اس کے کہنے پر 18 کروڑ عوام کے نمائندوں کے فیصلے کو فوقیت دی جائے یہ کہاں کا جنگل کا قانون ہے۔‘‘
حکومت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کا قیام آئین کے تحت ہوا ہے اور اس کی تحلیل پارلیمان میں دو تہائی اکثریت کے ذریعے ترمیم کے بغیر ممکن نہیں اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں یہ اکثریت موجود نہیں ہے۔