پاکستان میں حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع دینے سے قبل حکومت سے ان عدالتوں کی کارگزاری سمیت سول عدالتی نظام میں اصلاحات سے متعلق وضاحت پیش کرنے کا کہا ہے۔
جنوری 2015ء میں آئین میں اکیسویں ترمیم کر کے دہشت گردی میں ملوث غیر فوجی ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کی منظوری دی گئی تھی اور ان خصوصی اختیارات کی میعاد دو سال مقرر کی گئی تھی۔
گزشتہ ہفتے یہ مدت پوری ہونے پر فوجی عدالتوں نے اپنا کام بند کر دیا تھا جس کے بعد حکومت پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں سے ان عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق مشاورت کر رہی ہے۔
منگل کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت ہونے والے مشاورتی اجلاس میں حزب مخالف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے فوجی عدالتوں میں توسیع کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پہلے اس بات کی وضاحت کرے کہ ان عدالتوں سے کیا فوائد حاصل ہوئے اور دہشت گردی کے خاتمے کے اقدام کی تفصیل سے بھی آگاہ کرے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ حکومت یہ بتائے کہ کن حالات کے پیش نظر وہ ان عدالتوں میں توسیع چاہتی ہے اور اس کے متبادل اس نے کیا انتظامات کیے ہیں۔
ایک روز قبل ہی وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں کہا گیا تھا فوجی عدالتوں نے انسداد دہشت گردی کی جنگ میں انتہائی حساس وقت پر بہت اہم کردار ادا کیا اور ان میں توسیع کے لیے پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے آئندہ کی مدت طے کی جائے گی۔
فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت انسانی حقوق کی تنظیموں اور بڑی نمائندہ وکلا تنظیموں نے اعتراض کیا تھا کہ یہ ملک میں رائج نظام عدل کے متوازی نظام قائم کرنے کے مترادف ہے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو فعال بنانے کے اقدام کرے۔
حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے منگل کو ہونے والے مشاورتی اجلاس کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت نے ان دو سالوں میں سول عدلیہ میں اصلاحات اور انھیں فعال بنانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
"(حکومت نے کہا تھا کہ) وہ اصلاحات نافذ کرے گی جو انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ہیں ان کو فعال کرے گی تاکہ وہ اپنی ذمہ داری نبھا سکیں جو کہ پہلے نبھاتے ہوئے ان کو دقتیں پیش آ رہی تھی۔۔۔ان دو سالوں میں حکومت نے کچھ نہیں کیا جو اصلاحات لانی تھیں ایک اصلاح بھی یہ حکومت کرنے میں ناکام رہی ہے۔"
مشاورتی اجلاس کا اگلا دور 17 جنوری کو ہوگا۔
حکومت نے حال ہی میں انسداد دہشت گردی ایکٹ اور پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ کو ملا کر ایک نیا مجوزہ بل تیار کیا ہے جب کہ اطلاعات کے مطابق جلد انصاف کی خصوصی عدالتوں کی تشکیل سے متعلق بھی ایک تجویز زیر غور ہے۔
سلامتی کے امور کے سینیئر تجزیہ کار اکرام سہگل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع میں کوئی مضائقہ نہیں اور صرف اس بنا پر انھیں بند کر دینا مناسب نہیں کہ ابھی تک سول عدلیہ میں اصلاحات نہیں ہو سکی ہیں۔
پاکستان میں سول عدالتوں میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت مختلف وجوہات کے باعث طوالت کا شکار رہتی تھی جن میں گواہان اور وکیلوں سمیت ان کی سماعت کرنے والے ججز کو لاحق سلامتی کے خطرات بھی شامل ہیں۔
فوجی عدالتوں میں دو سالوں کے دوران 274 مقدمات سنے گئے جن میں سے 161 مجرموں کو سزائے موت جب کہ ایک سو سے زائد کو مختلف مدت کی قید کی سزائیں سنائی گئیں۔ ان سزاؤں کے خلاف مجرموں کو دیگر اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کا حق حاصل ہے۔