پاکستان میں دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے قائم کی گئی فوجی عدالتوں کی دو سالہ مدت جمعہ کی نصف شب ختم ہو گئی۔
سرکاری طور پر ان عدالتوں کے خصوصی اختیارات میں توسیع کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن مقامی ذرائع ابلاغ میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اب دہشت گردی کے مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ہی چلائے جائیں گے۔
16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں فوج کے زیرانتظام ایک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد حکومت نے پارلیمان سے آئین میں اکیسویں ترمیم اور فوجی ایکٹ میں ترمیم منظور کروا کے دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کو قانونی حیثیت فراہم کی تھی۔
ان عدالتوں کی تشکیل پر خاص طور سے انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے تنقید کی گئی اور انھیں ملک میں رائج نظام عدل کے مساوی ایک اور نظام قرار دیا گیا تھا۔
لیکن حکومت کا کہنا تھا کہ یہ عدالتیں صرف دو سال کے لیے قائم کی جا رہی ہیں جن میں مقدمات ایک طریقہ کار کے ذریعے جانچ پڑتال کے بعد بھیجے جائیں گے اور ملزمان کو اپنی صفائی کا پورا موقع دیا جائے گا۔
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا افضل نے ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ عدالتیں اس وقت کی ضرورت تھیں اور ان میں چلائے گئے مقدمات میں شدت پسندوں کو سزائیں بھی ہوئی جو کہ دہشت گردی کے خلاف کوششوں کے لیے ایک حوصلہ افزا بات ہے۔
"میں سمجھتا ہوں ایک مثال قائم ہوئی ہے اور یہ مثال اس طرح قائم ہوئی ہے کہ اعلیٰ درجے کے فیصلے ہوئے وہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی برقرار رکھے گئے تو اب جو ہماری پہلی سطح کی عدالتیں ہیں ان کے لیے مثال قائم ہو گئی ہے جو دہشت گردوں کا خوف یا لوگ جو گواہی کے لیے سامنے نہیں آتے تھے یا پاکستان میں فوری انصاف کی وہ قبولیت نہیں تھی آج وہ ساری چیزیں قائم ہو چکی ہیں۔"
سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی فوجی عدالتوں سے حاصل ہونے والے فوائد سے تو متفق ہیں لیکن ان کے خیال میں انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں ایسے مقدمات چلانے کے لیے حالات ماضی کی نسبت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوئے اور ان عدالتوں کی مدت میں توسیع کی جانی چاہیئے تھی۔
"میں نہیں سمجھتا کہ وہ (انسداد دہشت گردی کی عدالتیں) ان سے کوئی فائدہ اٹھا سکیں گی یا ان سے کوئی سبق لے سکیں گے کیونکہ ان کی مجبوریاں جو ہیں وہ تو وہاں قائم ہیں اور وہ میں نہیں سمجھتا کہ بہت سارے جج ایسے ہیں جو کہ چانس لینا چاہیں اور جو کہ بہت ہی سخت ہو کے فیصلے کرنا چاہیں جو فوجی عدالتیں کر لیتی ہیں تو ایسا کوئی اثر ہونے کا امکان میرے نزدیک تو نہیں ہے۔"
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق فوجی عدالتوں میں دو سالوں کے دوران لگ بھگ 275 مقدمات سنے گئے جن میں 160 سے زائد مجرمان کو سزائے موت جب کہ دیگر کو عمر قید سمیت مختلف مدت کی سزائیں سنائی گئیں۔
ان عدالتوں سے سزائے موت پانے والے بعض مجرموں نے سزاؤں کے خلاف ملک کی مختلف اعلیٰ عدالتوں سے بھی رجوع کیا تھا جس کے باعث بعض سزاؤں پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ہے۔