اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور دو مئی کو اس کے خلاف ایبٹ آباد میں خفیہ امریکی آپریشن کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کا دوسرا اجلاس پیر کو اسلام آباد میں ہور ہا ہے ۔
عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن کے سامنے اطلاعات کے مطابق پاکستانی فوج اور فضائیہ کے اعلیٰ عہدے دار پیش ہو کر ایبٹ آباد واقعہ کے حقائق سے متعلق اپنا بیان ریکارڈ کروائیں گے۔
پانچ جولائی کو کمیشن نے اپنے پہلے اجلاس کے بعد وزارت داخلہ اور سراغ رساں ایجنسی آئی ایس آئی کو ہدایت کی تھی کہ کمیشن کی اجازت کے بغیر اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کو پاکستان سے باہر نہ بھیجا جائے۔
تحقیقاتی کمیشن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایبٹ آباد واقعے سے متعلق معلومات رکھنے والے افراد جو بیان دینے میں دلچسپی رکھتے ہوں 31جولائی تک کمیشن کے سامنے پیش ہوسکتے ہیں اور ان کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔
دو مئی کو ایبٹ آباد کے علاقے بلال ٹاوٴن میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی فورسز نے خفیہ کارروائی کرکے اسے ہلاک کردیا تھا۔ آپریشن کے بعد اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کو یہیں چھوڑ دیا گیا جو اس وقت پاکستانی حکام کی تحویل میں ہیں۔
ایبٹ آباد واقعہ کے بعد پاکستان کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا تھا اور مئی کے وسط میں پارلیمان کے ایک بندکمرے میں ہونے والے مشترکہ اجلاس میں امریکی فورسز کی کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد میں امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کرنے اور اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے آزاد کمیشن بنانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے تشکیل دیئے گئے اس کمیشن میں جسٹس جاوید اقبال کے علاوہ تین دیگر اراکین میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ندیم احمد، امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اشرف جہانگیر قاضی اور پولیس کے سابق آئی جی عباس خان شامل ہیں۔
کمیشن امریکی فورسز کی کارروائی میں متعلقہ پاکستانی حکام کی طرف سے ممکنہ غفلت کی نوعیت ، حالات اور پس منظر کا تعین کر کے اپنی سفارشات مرتب کرے گا۔ تاہم اس کمیشن کو اپناکام مکمل کرنے کے لیے کوئی ڈید لائن نہیں دی گئی ہے۔
مقبول ترین
1