کشمیر کو منقسم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر حالیہ کشیدگی اور گزشتہ ہفتے بھارت کی طرف سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں ’سرجیکل اسٹرائیکس‘ کے دعوے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کے لیے بدھ کو پارلیمان کا مشترکہ اجلاس شروع ہوا۔
اجلاس کے آغاز پر وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ بھارت کشمیریوں کو اُن کے حق سے محروم نہیں رکھا سکتا۔ ’’کشمیر مسلسل آتش فشاں کی طرح سلگ رہا ہے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان نے بار بار یہ کوشش کی کہ مذاکرات کے ذریعے کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے۔
’’ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ بھارت مذاکرات کی میز پر آئے بار بار بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا لیکن بھارت کے رویے نے ہماری ان کوششوں کو آگے نہیں بڑھنے دیا بار بار بات چیت کا سلسلہ ٹوٹتا رہا۔۔۔ آج نا صرف جنوبی ایشیا کا امن خطرے سے دوچار ہے بلکہ دنیا بھی اس معاملے کی تپش محسوس کرنے لگی ہے۔‘‘
وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے اوڑی میں حملے کے بعد بھارت نے اس کی ذمہ داری بغیر تحقیق کے پاکستان پر ڈال دی تھی، جو اُن کے بقول درست نہیں۔
’’پاکستان نے کھلے دل سے کہا کہ واقعے کی غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائے لیکن کسی ثبوت کے بغیر وہی راگ الاپا جاتا رہا پھر عالمی اخلاقیات کو نظر انداز کرتے ہوئے دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔‘‘
اُنھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت نے عالمی برادری کو بھی آگاہ کیا ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں اور اُس کے کسی طرح کے جارحانہ عزائم نہیں ہیں۔
’’میں آج اس ایوان میں ایک بار پھر پاکستان کا یہ پختہ موقف دہرانا چاہتا ہوں کہ ہم جنگ کے خلاف ہیں ہم خطے میں پائیدار امن چاہتے ہیں ہم کشمیر سمیت تمام مسائل سنجیدہ با مقصد اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں ہم سوچی سمجھی راہ پر ثابت قدمی سے چلتے رہیں گے لیکن امن کی اس خواہش کو ایک پروقار باعزت اور خودار قوم کی خواہش سمجھا جائے۔۔۔۔۔۔ اگر اُن کی خواہش یہ ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں اور ترقی اور خوشحالی میں ہمارا مقابلہ ہو تو یہ کام آگ، بارود اور خون کے کھیل کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔‘‘
پارلیمان کے اس اہم اجلاس میں پاکستان میں حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت تحریک انصاف شرکت نہیں کر رہی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے منگل کی شام اپنی جماعت کے سینیئر رہنماؤں کے اجلاس کے بعد اعلان کیا تھا کہ اُن کی جماعت نے رواں ہفتے ہی پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں شرکت کر کے یہ واضح پیغام دیا کہ کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔
’’ہم نے بڑی بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ تحریک انصاف پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کر رہی ہے۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ نواز شریف وزیراعظم رہنے کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں‘‘۔
پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے دو بیٹوں اور بیٹی کا نام سامنے آنے کے بعد سے وزیراعظم کے خلاف تحریک انصاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہے۔
تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر ہونے والے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف کو شرکت کر کے یہ واضح پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ اس معاملے پر سب جماعتیں اکٹھی ہیں۔
’لائن آف کنٹرول‘ پر حالیہ صورت حال پر رواں ہفتے دو اہم اجلاس ہو چکے ہیں۔
ایک اجلاس میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی اور کشمیر کے معاملے پر حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جب کہ دوسرا اجلاس قومی سلامتی کمیٹی کا تھا، جس میں سیاسی و عسکری قیادت نے موجودہ صورت حال پر غور کیا اور بیان میں کہا گیا کہ پاکستان امن کا خواہاں لیکن اس خواہش کو کسی طور کمزوری نا سمجھا جائے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ کشمیر میں ’لائن آف کنٹرول‘ پر فائرنگ سے اس کے دو پاکستانی فوجی مارے گئے تھے۔
لیکن ’سرجیکل سٹرائیکس‘ سے متعلق بھارت کے دعویٰ کی پاکستان کی طرف سے مسلسل تردید کی جا رہی ہے۔
حالیہ دنوں میں ’لائن آف کنٹرول‘ پر پاکستان اور بھارت کی افواج کے درمیان متعدد بار فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس سے سرحدی علاقوں میں آباد لوگ خوفزدہ ہیں اور بعض علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی بھی کی ہے۔