ایم کیو ایم کے حکومت سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں جہاں حزب اختلاف مضبوط ہو گی وہیں سندھ اسمبلی میں بھی اپوزیشن متحرک نظر آئے گی ۔ ایم کیو ایم کے اراکین کی اپوزیشن پنچوں پر آمد سے حکمران اتحاد کی تعداد کم ہو کر 213 رہ گئی ہے جبکہ اپوزیشن اراکین بڑھ کر 128 ہوگئے ہیں ۔ اسی طرح سندھ اسمبلی میں بھی اپوزیشن میں ایم کیو ایم کی اکیاون نشستوں کی شمولیت سے ایک حقیقی اپوزیشن سامنے آرہی ہے ۔
موجودہ حالات میں پیپلزپارٹی کا سب سے بڑا سہارا مسلم لیگ ق ہے تاہم ماہرین کے مطابق یہ جماعت بھی پیپلزپارٹی کا ساتھ دینے پر سخت تو ڑ پھوڑ کا شکار ہو چکی ہے ۔اگر مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ مل کر حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہیں تو وفاق اور سندھ میں حکومت کو شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں جبکہ پنجاب میں جہاں پہلے ہی مسلم لیگ ن کی حکومت ہے ۔
متحدہ قومی موومنٹ کی صوبائی و وفاقی حکومت سے علیحدگی کے اعلان کے بعد سندھ کے 13وزراء اور 1مشیر نے استعفیٰ وزیر اعلیٰ ہاؤس ارسال کیا۔تاہم استعفوں کی منظوری کافیصلہ ابھی ہونا باقی ہے ۔
مستعفیٰ ہونے والے صوبائی وزراء میں سید سردار احمد ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے عادل صدیقی ،منسٹری فور بیورو آف سپلائی اینڈ پرائسس کے سید شعیب احمد بخاری،صنعت وتجارت کے صوبائی وزیر عبدالرؤف صدیقی،صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر صغیر احمد،صوبائی وزیر کھیل ڈاکٹر سید محمد علی شاہ،صوبائی وزیر نوجوانان امور فیصل سبزواری،انسانی حقوق کی صوبائی وزیر نادیہ گبول،صوبائی وزیر ماحولیات شیخ محمد افضل،صوبائی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی رضا ہارون،صوبائی وزیر اوقاف عبدالحسیب ، نثار احمد پنہوراورخالد بن ولایت شامل ہیں جبکہ مشیر وزیر اعلیٰ سندھ خواجہ اظہار الحسن نے بھی اپنا استعفیٰ وزیر اعلیٰ سندھ کو بھجوادیا ہے ۔