متحدہ قومی مومنٹ کےممتازرہنما ڈاکٹر عمران فاروق کو لندن میں انکی رہائش گاہ کے قریب قتل کردیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق عمران فاروق برطانوی وقت کے مطابق تقریبا ساڑھے سات بجےشام اپنے گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے کے کہ وہا ں پر موجود کسی شخص نے انہیں چھریوں کے وار کر کے شدید زخمی کردیا۔ اسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔
ڈاکٹر عمران فاروق ایم کیو ایم کے بنیادی اور اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں ایک عرصے تک روپوش ہونے کے بعد، عمران فاروق ڈرامائی طور پر لندن پہنچ گئے تھے جہاں وہ جلا وطنی کی زندگی گزاررہے تھے۔
عمران فاروق کے قتل کے سوگ میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنی 57 ویں سالگرہ کی تقریبات منسوخ کردی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے فون پر رابطے پر ایم کیو ایم کے لندن دفتر نے عمران فاروق کے قتل کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسین کے صدارت میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا ہنگامی اجلاس جاری ہے۔
ڈاکٹر عمران فاروق ایم کیو ایم میں رابطہ کمیٹی کے کنوینر کے عہدے پہ فائز ہونے والے واحد رہنما تھے۔ تاہم وہ گزشتہ دو سال سے پارٹی میں غیر فعال ہونے کے بعد سے سیاسی منظر نامے سے غائب تھے ۔ ڈاکٹر عمران کے والد فاروق احمد بھی ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر 1997 میں کراچی سے رکنِ قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔
مقتول نے سوگواران میں اہلیہ شمائلہ نذر (متحدہ قومی موومنٹ کی سابق رکنِ صوبائی اسمبلی سندھ جن سے انہوں نے 2004 میں شادی کی تھی) اور دو بچے چھوڑے ہیں ۔
دریں اثنا، جمعرات کی رات گئےوائس آف امریکہ سےبات کرتے ہوئےمتحدہ قومی مومنٹ کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر اورسمندر پارپاکستانیوں کےوفاقی وزیرڈاکٹر فاروق ستارنےڈاکٹرعمران فاروق کےجاں بحق ہونےکو پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیا ہے۔اُنھوں نے کہا کہ مرحوم ڈاکٹر عمران فاروق کے والدین اور متحدہ کی خواہش ہے کہ مرحوم کی تدفین پاکستان میں ہو۔
ڈاکٹر فاروق ستارنے اِس واقعے پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہلاک کرنے والوں نےایسے دِن کا انتخاب کیا جب، اُن کے بقول، متحدہ کےارکان قائدِ تحریک کی ملک بھر میں سالگرہ منانے کا پروگرام بنا رہے تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ ‘یہ سانحہ ایسے وقت پیش آیا جب متحدہ ایک نئے جذبے کے ساتھ نظریاتی و ذہنی انقلاب کی تیاری کر رہی ہے۔’
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ جب تک واقعے کی تحقیقات مکمل نہیں ہوتی تو کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ اُن کے بقول، صحیح صورتِ حال واضح ہو تو کوئی بات کہی جاسکتی ہے۔
رابطہ کمیٹی کے مرکزی رُکن، سلیم شہزاد نے ڈاکٹر عمران فاروق کی ملک اور ایم کیو ایم کے لیے خدمات کو سراہا اور کہا کہ مرحوم تحریک کے کنوینر، رُکن قومی اسمبلی اور وزیر رہ چکے تھے، جنھوں نے شروع سے لے کر تکالیف کاٹیں اور تحریک میں قابلِ ذکر کردار ادا کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے سوائے اِس بات کے کہ اُن پر حملہ ہوا جِس میں وہ جاں بحق ہوگئے۔
سلیم شہزاد نے بتایا کہ جب وہ جائے وقوعہ پر پہنچے تو پولیس نے علاقے کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور ہلاکت سے متعلق تفصیلات کا علم اُسی وقت ہوسکے گا جب پوسٹ مارٹم اور پولیس کی تحقیقات کی رپورٹ سامنے آئے گی۔
اُنھوں نے اِن رپورٹوں کی تردید کی کہ ڈاکٹر عمران فاروق پر خود اُن کے اپنے محافظ نے حملہ کیا تھا۔
ڈاکٹر عمران فاروق ایم کیو ایم کے بنیادی اور اہم رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ نواز شریف کے دور حکومت میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں ایک عرصے تک روپوش ہونے کے بعد، عمران فاروق ڈرامائی طور پر لندن پہنچ گئے تھے جہاں وہ جلا وطنی کی زندگی گزاررہے تھے
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1