پاکستان نے کہا کہ وہ افغانستان میں امن واستحکام کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا اور سابق افغان صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کی تحقیقات میں بھی مکمل تعاون کیا جا رہا ہے۔
مالدیپ میں جمعہ کو افغان صدر حامد کرزئی کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ خطے میں امن کے لیے مزید تاخیر برداشت نہیں کی جاسکتی اور اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان اور بھارت کی قیادت بھی کوششیں کر رہی ہے۔
’’ہمیں خلوص سے یہ تہیہ کرنا ہو گا کہ ہم اپنی سر زمینوں کو ایک دوسرے کے مفادات کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
اُنھوں نے صدر حامد کرزئی کو یقین دلایا کہ افغانوں کی قیادت میں افغانستان میں سیاسی مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے کی جانے والی کسی بھی پہل کی پاکستان مکمل حمایت کرے گا۔
پاکستانی وزیراعظم نے افغانستان میں تعمیر نو کے منصوبوں میں نجی شعبے کے کردار پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں توانائی، مواصلات، صنعت، کان کنی، زراعت اور ماحولیات کے شعبوں میں تعاون کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔‘‘
اس موقع پر افغان صدر نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان پُرامن ہمسائے کے طور پر رہنا چاہتے ہیں، اور ایک بار پھر واضح کیا کہ بھارت کے ساتھ اُن کے ملک کا معاہدہ خالصتاً تجارتی نوعیت کا ہے جس سے پاک افغان تعلقات متاثر نہیں ہوں گے۔
’’اس معاہدے سے بنیادی طور پر افغانستان کے نوجوانوں کو بھارت کی صلاحیتوں اور مہارت سےمستفید ہونے کا موقع ملے گا۔‘‘
مزید برآں اُن کا کہنا تھا کہ پروفیسر ربانی کے قتل کی وجہ سے ملتوی ہونے والا افغانستان، پاکستان اور ایران کے وفود کا سہ فریقی اجلاس بھی جلد بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ایک روز قبل مالدیپ میں علاقائی ملکوں کی تنظیم سارک کے سربراہ اجلاس سے اپنے خطاب میں بھی صدر کرزئی نے کہا تھا کہ بھارت کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری اور امریکہ کے ساتھ اسی طرح کے معاہدے کے لیے اُن کے ملک کے مذاکرات سے ہمسایہ ملکوں کو خائف ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا مقصد خطے میں امن کا فروغ ہے۔
بھارت اور افغانستان کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر پاکستان میں بعض مبصرین یہ کہہ کر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس کی بدولت بھارت کو افغان سر زمین پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع ملے گا کیونکہ سمجھوتے کی شقوں کے تحت بھارتی فوج ماہرین افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت بھی دیں گے۔
افغان صدر کا سارک کے اجلاس سے خطاب اور پھر وزیراعظم گیلانی سے ملاقات کے بعد بیان بظاہر ان ہی خدشات کو دور کرنے کی کوشش تھی۔
ایک روز قبل دیے گئے بیان میں امریکی وزیر دفاع کے اعلیٰ عہدے دار مائیکل فلارنوائے نے بھی کہا کہ پاکستان کے خدشات کا احساس کرتے ہوئے بھارت افغان سکیورٹی فوسرز کی تربیت میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے کے حق میں نہیں۔