پاکستان میں ایک نجی ٹی وی چینل "جیو نیوز" کے خلاف وزارت دفاع کی طرف سے الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو بھیجی گئی درخواست پر قانونی رائے معلوم کرنے کے لیے پیمرا نے وزارت قانون سے رابطہ کیا ہے۔
وزارت دفاع نے گزشتہ ماہ سنیئر صحافی حامد میر پر ہونے والے حملے کے بعد جیو نیوز کی طرف سے ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ اور اس کے اہلکاروں کو اس کا میبنہ طور پر ذمہ دار ٹھہرانے کی "مہم" کے خلاف پیمرا کو درخواست دی تھی۔
اس درخواست میں جیو کی نشریات کو معطل کرنے اور اس کے لائسنس کو منسوخ کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
اس معاملے کے حقائق جاننے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ پر پیمرا کے جمعہ کو ہونے والے اجلاس میں ارکان کی اکثریت کا فیصلہ تھا کہ اس پر کارروائی سے قبل وزارت قانون سے مشورہ لیا جانا چاہیئے۔
کمیٹی کے دو ارکان اسرار عباسی اور میاں شمس نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ پیمرا مبینہ طور پر حکومت کے دباؤ میں آتے ہوئے جیو کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتا لہذا وہ پیمرا کی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہیں۔
ہفتہ کو ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ حکومت ملک میں مضبوط جمہوریت چاہتی ہے جہاں مسائل کو قانونی طریقے سے حل کیا جائے۔
پرویز رشید کے پاس وزارت قانون کا بھی اضافی قلمدان بھی ہے۔ انھوں نے ایسے بیانات اور الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیمرا کی طرف سے بھیجی گئی دستاویز کو پڑھ کر اس کا جواب دیں گے۔
"میری وزارت کے پاس یہ معاملہ آرہا ہے لہذا جو بھی مجھ پر الزام لگاتے ہیں میں کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا وہ میرے لیے مناسب نہیں ہے۔ وزارت کے اہل لوگ جو اس سے پہلے بھی حکومت کے لیے قانون سازی کا کام کرتے ہیں وہ اس کو دیکھیں گے، وہ اپنی قانونی رائے دیں وہ ہم لکھ کر ان (پیمرا) کو واپس کردیں گے۔"
ملک کے اکثر سیاسی و سماجی حلقوں میں اس معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک آزادی صحافت کے نام پر ریاستی اداروں کی ہرزہ سرائی نہیں کی جانی چاہیئے جب کہ بعض کا موقف ہے کہ ذرائع ابلاغ کے کسی حصے پر قدغن لگانے کی بجائے ریاستوں اداروں کو آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیئے۔
وزارت دفاع نے گزشتہ ماہ سنیئر صحافی حامد میر پر ہونے والے حملے کے بعد جیو نیوز کی طرف سے ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ اور اس کے اہلکاروں کو اس کا میبنہ طور پر ذمہ دار ٹھہرانے کی "مہم" کے خلاف پیمرا کو درخواست دی تھی۔
اس درخواست میں جیو کی نشریات کو معطل کرنے اور اس کے لائسنس کو منسوخ کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
اس معاملے کے حقائق جاننے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ پر پیمرا کے جمعہ کو ہونے والے اجلاس میں ارکان کی اکثریت کا فیصلہ تھا کہ اس پر کارروائی سے قبل وزارت قانون سے مشورہ لیا جانا چاہیئے۔
کمیٹی کے دو ارکان اسرار عباسی اور میاں شمس نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ پیمرا مبینہ طور پر حکومت کے دباؤ میں آتے ہوئے جیو کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتا لہذا وہ پیمرا کی رکنیت سے استعفیٰ دیتے ہیں۔
ہفتہ کو ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ حکومت ملک میں مضبوط جمہوریت چاہتی ہے جہاں مسائل کو قانونی طریقے سے حل کیا جائے۔
پرویز رشید کے پاس وزارت قانون کا بھی اضافی قلمدان بھی ہے۔ انھوں نے ایسے بیانات اور الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ وہ پیمرا کی طرف سے بھیجی گئی دستاویز کو پڑھ کر اس کا جواب دیں گے۔
"میری وزارت کے پاس یہ معاملہ آرہا ہے لہذا جو بھی مجھ پر الزام لگاتے ہیں میں کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا وہ میرے لیے مناسب نہیں ہے۔ وزارت کے اہل لوگ جو اس سے پہلے بھی حکومت کے لیے قانون سازی کا کام کرتے ہیں وہ اس کو دیکھیں گے، وہ اپنی قانونی رائے دیں وہ ہم لکھ کر ان (پیمرا) کو واپس کردیں گے۔"
ملک کے اکثر سیاسی و سماجی حلقوں میں اس معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک آزادی صحافت کے نام پر ریاستی اداروں کی ہرزہ سرائی نہیں کی جانی چاہیئے جب کہ بعض کا موقف ہے کہ ذرائع ابلاغ کے کسی حصے پر قدغن لگانے کی بجائے ریاستوں اداروں کو آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیئے۔