انسانی حقوق کی علم بردار غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے بھارت کا دورہ کرنے والے فنکاروں پر لگائی گئی نئی شرط کو ’احمقانہ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی پُرزور مذمت کی ہے۔
پاکستان کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ 15 مارچ کے بعد فنکاروں کو بھارت کا دورہ کرنے سے قبل وزارت داخلہ سے اجازت نامہ حاصل کرنا ہوگا۔ حکومت کے بقول اس اقدام کا مقصد فنکاروں کے بیرون ملک دوروں کو منظم کرنا اور ملک کی سلامتی اور اس کے وقار کو یقینی بنانا ہے۔
تاہم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اس شرط کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
تنظیم کے سینیئر عہدے دار آئی اے رحمن نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں خدشہ ظاہر کیا کہ اس اقدام کی زد میں وہ افراد آئیں گے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان عوامی سطح پر رابطے بڑھا کردوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہیں۔
”آرٹسٹ بھارت اور پاکستان کو قریب لا رہے ہیں، ان کے درمیان اختلافات کو کم کر رہے ہیں، تصادم کی فضا کو مدہم کر رہے ہیں اور اُن پر پابندی لگانے سے امن کے فروغ کی کوشش کو نقصان پہنچے گا۔“
آئی اے رحمن نے کہا کہ بھارت جانے والے افراد پر اس قسم کی پابندیاں گزرے وقتوں میں آزادی اظہار رائے کو دبانے کے عمل کی یاد دلاتی ہیں اور موجودہ دور میں معاشرہ ان اقدامات کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔
پاکستان کی سول سوسائٹی وقتاً فوقتاً بھارتی تنظیموں کے تعاون سے تقافتی طائفوں کے تبادلے کررہی ہے اور رواں ماہ بھی بھارتی فنکاروں پر مشتمل ایک وفد نے لاہور کا دورہ کیا تھا۔
پاکستانی حکومت نے بھارت کا دورہ کرنے والے فنکاروں پر اجازت نامے کی شرط ایسے وقت لگائی ہے جب نامور پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان پر بھارتی کسٹم قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانے کی سزا دونوں ملکوں کے ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔