آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گرد حملے کی تحقیقات کے لئے قائم عدالتی کمیشن کے سامنے پشاور کے سابق کور کمانڈر لفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) ہدایت الرحمان کا بیان مکمل ہو گیا ہے۔
سابق کور کمانڈر کا بیان جسٹس محمد ابراہیم خان کے سربراہی میں قائم عدالتی تحقیقاتی کمیشن میں چار دن میں مکمل ہوا۔
لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ہدایت الرحمان اُس وقت فوجی فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا میں قائم تمام آرمی پبلک اسکولوں کے سرپرست اعلیٰ بھی تھے۔
تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پشاور پولیس کے سابق ایس ایس پی آپریشن نجیب الرحمان بھگوی کی شہادت بھی سوموار کو مکمل گئی۔
تحقیقاتی کمیشن کے ترجمان نے ذرائع ابلاع کو بتایا ہے کہ سابق کور کمانڈر کے بیان کی تکمیل کے بعد اب فوج کے دیگر آٹھ اعلیٰ عہدیداروں کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں کمیشن کے سیکرٹری اجمل طاہر نے وفاقی وزارت دفاع کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان آٹھ افسران کے کمیشن کے سامنے پیش ہونے اور بیانات ریکارڈ کرانے کے شیڈول کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
ان آٹھ افسران میں موجودہ میجر جنرل انعام حیدر شامل ہیں جو 16 دسمبر 2014ء کو ہلاکت حیز حملے کے وقت بریگیڈیئر کے عہدے پر انجینئرنگ کور میں تعینات تھے۔
عبدالنعیم بھی اُس وقت بریگیڈیئر کی حیثیت سے آرمی پبلک سکول کے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین تھے۔ اُس وقت کے لفٹیننٹ کرنل مظفر الدین انصاری اور جمیل احمد لخیار، میجر اسجد بگٹی، میجر امیر شاہ اور زاہد چیمہ کے نام بھی ان آٹھ افسران میں شامل ہیں جنہیں کمشن نے بیان ریکارڈ کرانے کے لیے طلب کیا ہے۔
16 دسمبر 2014ء کو عسکریت پسندوں کے خلاف ایکشن اور امدادی کارروائیوں میں میجر امیر شاہ زخمی بھی ہوئے تھے۔
اس سے قبل بھی کئی اور اعلیٰ فوجی عہدیدار تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنے بیانات ریکارڈ کرا چکے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق عدالتی کمیشن میں اب تک لگ بھگ 107 افراد کے بیانات ریکارڈ کئے جا چکے ہیں۔ جن میں اکثریت ان والدین اور دیگر رشتہ داروں کی ہے جن کے بچے دہشت گرد حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بچوں کے والدین کی ایک تنظیم کے عہدیدار اور ممبران پہلے ہی سے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کے ایک وفد نے اجون خان ایڈوکیٹ کی قیادت میں کمیشن کے سربراہ جسٹس محمد ابراہیم خان سے ملاقات بھی کی ہے۔ تاہم متاثرہ والدین کی ایک اور تنظیم کے فضل خان ایڈوکیٹ عدالتی تحقیقاتی کمیشن کی کارکردگی سے زیادہ خوش نہیں دکھائی دیتے۔
16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گرد حملے میں 133 بچوں سمیت لگ بھگ 147 افراد مارے گئے تھے۔ اس حملے کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے بعد نہ صرف دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے قومی لائحہ عمل ترتیب دیا گیا تھا بلکہ دہشت گردی میں ملوث عناصر کے مقدمات جلد از جلد نمٹانے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کا بھی فیصلہ ہوا تھا۔ ان عدالتوں سے مجموعی طور پر 56 مبینہ دہشت گردوں کو سنائی جانے والی پھانسی کے سزاؤں پر عمل درآمد ہو چکا ہے۔
فوجی عدالتوں کی مدت گزشتہ دسمبر میں ختم ہو گئی تھی اور اس میں توسیع کے لئے حکومت کی جانب ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ حزب اختلاف میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت العلماء اسلام (ف) سمیت کئی ایک سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حق میں نہیں ہیں۔