اسلام آباد —
پاکستان میں تیل اور گیس کی قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے اوگرا نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یکم مارچ سے 4 روپے 35 پیسے تک کا اضافہ کیا ہے جس کے بعد ملک بھر کے عوام میں ایک بار پھر شدید غصہ پایا جا رہا ہے۔
لوگوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کے لیے یہ اضافہ ان کی مشکلات کو ناقابل برداشت حد تک بڑھا دے گا۔
نئی قیمتوں کے مطابق پٹرول 106روپے 60 پیسے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل 113 روپے 56 پیسے، مٹی کا تیل 103 روپے انہتر پیسے اور لائٹ ڈیزل 98 روپے 26 پیسے فی لیٹر میں فروخت ہورہا ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لوگوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پٹرولیم مصنوعات میں اس اضافے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایک ٹیکسی ڈرائیور ارشد خان کا کہنا تھا کہ سی این جی پہلے ہی بمشکل دستیاب ہے اور اب پٹرول بھی ان کی قوت خرید سے باہر ہوتا جارہا ہے۔
فیصل نواز ایک نجی ادارے میں ملازمت کرتے ہیں اور انھوں نے بھی اس تازہ اضافے کو تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اقتدار سے جاتے جاتے عوام کو کوئی سہولت دے کر جاتی۔
پٹرول کے حصول کے لیے کھڑے ایک شخص جمیل احمد تو خاصے نالاں دکھائی دیے، ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے تو صرف اس دور میں مہنگائی ہی دیکھی ہے۔
’’سو کر اٹھتے ہیں تو پٹرول مہنگا ہوا ہوتا ہے ہم نے کیا کرنا ہے عوام نے تو صرف رونا ہی ہے۔ ایک روپیہ سستا کرتے ہیں تو پھر دس روپے مہنگا کردیتے ہیں۔ یہی ریلیف دیا ہے حکومت نے ہم عوام روتے رہیں اور انھیں یاد کرتے رہیں۔‘‘
ادھر جمعہ کو قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر اضافے کے خلاف اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ بھی کیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں کا تعین عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے مطابق کیا جاتا ہے اور وزارت پیٹرولیم کے عہدیدار بار ہا یہ کہہ چکے ہیں گزشتہ سالوں کے دوران عوام کو اربوں ڈالر کی سبسڈی یا رعایت دی گئی ہے تاکہ عام آدمی پر اضافی بوجھ نا پڑے۔
لوگوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ پہلے سے مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کے لیے یہ اضافہ ان کی مشکلات کو ناقابل برداشت حد تک بڑھا دے گا۔
نئی قیمتوں کے مطابق پٹرول 106روپے 60 پیسے فی لیٹر، ہائی اسپیڈ ڈیزل 113 روپے 56 پیسے، مٹی کا تیل 103 روپے انہتر پیسے اور لائٹ ڈیزل 98 روپے 26 پیسے فی لیٹر میں فروخت ہورہا ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لوگوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پٹرولیم مصنوعات میں اس اضافے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایک ٹیکسی ڈرائیور ارشد خان کا کہنا تھا کہ سی این جی پہلے ہی بمشکل دستیاب ہے اور اب پٹرول بھی ان کی قوت خرید سے باہر ہوتا جارہا ہے۔
فیصل نواز ایک نجی ادارے میں ملازمت کرتے ہیں اور انھوں نے بھی اس تازہ اضافے کو تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ اقتدار سے جاتے جاتے عوام کو کوئی سہولت دے کر جاتی۔
پٹرول کے حصول کے لیے کھڑے ایک شخص جمیل احمد تو خاصے نالاں دکھائی دیے، ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے تو صرف اس دور میں مہنگائی ہی دیکھی ہے۔
’’سو کر اٹھتے ہیں تو پٹرول مہنگا ہوا ہوتا ہے ہم نے کیا کرنا ہے عوام نے تو صرف رونا ہی ہے۔ ایک روپیہ سستا کرتے ہیں تو پھر دس روپے مہنگا کردیتے ہیں۔ یہی ریلیف دیا ہے حکومت نے ہم عوام روتے رہیں اور انھیں یاد کرتے رہیں۔‘‘
ادھر جمعہ کو قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر اضافے کے خلاف اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ بھی کیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں کا تعین عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے مطابق کیا جاتا ہے اور وزارت پیٹرولیم کے عہدیدار بار ہا یہ کہہ چکے ہیں گزشتہ سالوں کے دوران عوام کو اربوں ڈالر کی سبسڈی یا رعایت دی گئی ہے تاکہ عام آدمی پر اضافی بوجھ نا پڑے۔