پاکستان کی قومی ائیر لائن ’پی آئی اے‘ نے اُن خبروں کی تردید کی ہے کہ رواں ہفتے حادثے کا شکار ہونے والا طیارہ پہلے سے تکنیکی خرابی کا شکار تھا۔
دو انجن والا ’اے ٹی آر‘ طیارہ چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے بدھ کو حویلیاں کے قریب ایک پہاڑی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔
اس طیارے پر 42 مسافر اور عملے کے پانچ افراد سوار تھے، جن میں سے کوئی بھی نا بچ سکا۔ طیارہ حادثے کے بعد یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ ’اے ٹی آر‘ جہاز تکنیکی خرابی کا شکار تھا اور اس کے باجود سفر کے لیے استعمال کیا گیا۔
’پی آئی اے‘ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ’اے ٹی آر‘ طیارے پرواز کے لیے مکمل طور پر محفوظ ہیں اور یہ ٹھنڈے اور گرم دونوں موسموں میں کم فاصلے کی پروازوں کے لیے کار آمد اور کم خرچ طیارے ہیں۔تاہم ’پی آئے اے‘ کے ترجمان نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ ’’طیارے کے پائلٹ اور انجینئر کسی پیشگی خرابی کی صورت میں دیگر مسافروں کے ساتھ اپنی زندگی کبھی خطرے میں نہیں ڈال سکتے تھے۔‘‘
اس حادثے کی وجوہات کے بارے میں ’پی آئی اے‘ انتظامیہ کی طرف تاحال کچھ نہیں کیا گیا ہے البتہ اس بات کی تصدیق ’پی آئی اے‘ کے چیئرمین اعظم سہگل نے کی تھی جب آخری مرتبہ پائلٹ کا کنٹرول ٹاور سے رابطہ ہوا تو اس وقت یہ بتایا گیا کہ جہاز کا ایک انجن فیل ہو گیا ہے۔
پاکستان کی قومی ائیر لائن ’پی آئی اے‘ کے پاس اس وقت 11’اے ٹی آر‘ طیارے ہیں اور انتظامیہ کے مطابق وہ تمام فعال ہیں اور اُن کی باقاعدگی کے ساتھ جانچ کی جاتی ہے۔
دوسری جانب اس حادثے کی وجہ جاننے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں، جمعرات کو وزیراعظم نواز شریف نے ’پی آئی اے‘ کی اعلیٰ انتظامیہ سمیت دیگر متعلقہ عہدیداروں کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے طیارے حادثے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ہدایت دی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ اہم ہے کہ کم سے کم وقت میں سچ کو عوام کے سامنے لایا جائے اور وزیراعظم نے پاکستان ائیر فورس کے سینئر افسر کو انکوائری کمیٹی میں شامل کرنے کی بھی ہدایت دی تھی۔
اُدھر حادثے میں ہلاک ہونے والے مسافروں اور عملے کے 47 افراد میں سے اب تک صرف آٹھ افراد کی شناخت ہو سکی ہے اور اُن کی میتیں ورثا کے حوالے کی جا چکی ہیں جن کی تدفین کر دی گئی ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بقیہ افراد کی شناخت صرف ’ڈی این اے‘ تجزیے ہی سے ممکن ہے۔
پمز اسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر الطاف نے جمعہ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ ’ڈی این اے‘ تجزیہ کا عمل انتہائی احتیاط سے جاری ہے۔
واضح رہے حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں سوار مسافروں میں اکثریت کا تعلق چترال سے تھا۔ چترال سے رکن قومی اسمبلی پرنس افتخار کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں 35 کا تعلق چترال سے تھا اور اُن کے بقول علاقے میں فضا سوگوار ہے۔