پاکستان کے سرکاری منصوبہ بندی کمیشن نےجمعہ کو ایک تازہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں حکومت کے جانب سے سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے کئے جانے والے اقدامات کو اجاگر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کاروبار کے لیے دوستانہ پالیسیوں بالخصوص ٹیکسوں میں چھوٹ کا ذکر کیا گیا ہے۔ پالیسیوں کے تحت غیر ملکی سرمایہ کار اپنا سوفیصد منافع بیرون ملک منتقل کر سکتے ہیں۔
لیکن منصوبہ بندی کمیشن نے اس امرکا بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں امن و امان کی خراب صورتحال، توانائی کے بحران اور معاہدوں پر عملدرآمد میں کوتاہیوں نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی ہے۔
غیر جانب دار مبصرین بھی معیشت کی سست رفتار کی بڑی وجہ توانائی کے بحران کو قرار دیتے ہیں جبکہ مقامی سرمایہ کار بھی بجلی اور قدرتی گیس کی فراہمی میں عدم استحکام کی وجہ سے پریشان ہیں۔
ان میں سرفہرست ٹیکسٹائل کی صنعت ہے جو سردیوں میں گیس کی فراہمی کے حکومتی منصوبے کے خلاف ان دنوں سراپا احتجاج ہے۔
آل پاکستان ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے نائب چیئرمین شیخ محمد اکبر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ملک کی نصف سے زائد برآمدت ٹیکسٹائل مصنوعات پر مشتمل ہیں۔ یورپ اور امریکہ جیسی منڈیوں سے ملنے والے آڈرز گیس کی لوڈشیڈنگ کے نتیجے میں وقت پر مکمل نہیں ہو پا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا گزشتہ سال 14 ارب ڈالر مالیت کی ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کی گئی تھیں لیکن رواں سال برآمدی ہدف کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے۔
’’ گیس اور بجلی کی عدم فراہمی کے باعث خریدار ہمیں آڈر دینے میں ہچکچا رہے ہیں یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے صنعت کو اپنی ترجیہات میں نہیں رکھا، اس کا نتیجہ کیا نکلے گا بڑے پیمانے پر لوگ بے روزگار ہوں گے صنعتیں بند ہوں گی اور قرضے ادا نہیں ہو پائیں گے۔‘‘
ایپٹما کے نائب چیئرمین نے کہا کہ اگر گیس کی لوڈ شیڈنگ کی ایسی ہی صورتحال برقرار رہی تو ان حالات میں وہ اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
لیکن حکومت پاکستان کا موقف ہے کہ وہ ٹیکسٹائل سمیت دیگر صنعتوں کو پورا سال گیس فراہم کرنے کی پابند نہیں ہے کیونکہ معاہدے کے تحت صنعتوں کو سال میں صرف نو ماہ گیس فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود سردیوں میں بھی ٹیکسٹائل کی صنعت کو ہفتے میں تین دن گیس فراہم کی جارہی اس لیے ٹیکسٹائل صعنت کا احتجاج بلاجواز ہے۔