اسلام آباد —
وزیراعظم نواز شریف نے وزراء کو ہدایت دی ہے کہ وہ آئندہ 15 روز میں اپنی اپنی وزارتوں میں بہتری کے لیے اہداف طے کر لیں اور اطمینان بخش کارکردگی نا دیکھانے والے وزراء کی کابینہ میں رہنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
حلف اٹھانے کے بعد وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے پیر کو خطاب کرتے ہوئے، انھوں کہا کہ وزارتوں کے طے کردہ اہداف اور ان کی تکمیل کے لیے متعین وقت کا جائزہ لینے کے بعد ہی ان کی منظوری دی جائے گی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اہداف پر پیش رفت سے متعلق جائزہ ہر تین ماہ کے بعد لیا جائے گا۔
’’غیر سنجیدہ رویے سے اب کام نہیں چلے گا۔ ہمیں اس نظام میں نئی روح پھونکنی ہوگی اور وہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک (کے بارے میں) نا سوچیں اور صرف پاکستان کے مسائل پر نظر رکھتے ہوئے عہد نا کریں کہ ہمیں انہیں جلد از جلد حل کرنا ہے‘‘
انھوں نے اجلاس میں یہ واضح کیا کہ ان کی جماعت کو عوام نےجو ذمہ داری سونپی ہے وہ ’’اسے پورا کرنے میں ناکام نہیں ہونا چاہتے‘‘۔
’’یہ میرا کوئی ذاتی کام نہیں، قومی کام ہے، قومی ذمہ داری ہے...ایک ایک ممبر کو منشور پڑھنا چاہیے۔ ایک ایک سطر پڑھیں۔ اس میں آپ کے شعبے کے بارے میں سب کچھ لکھا ہے۔‘‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ملک کو غربت و افلاس، شدت و انتہا پسندی، معاشی بدحالی، توانائی کے بحران، بد عنوانی اور عالمی سطح پر تنہائی جیسے ’’سنگین مسائل‘‘ کا سامنا ہے۔
انھوں نے وزراء پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ نا وہ خود بدعنوانی میں ملوث ہوں اور نا ہی کسی دوسرے کو ایسا کرنے کی اجازت دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
وزراء کو کفایت شعاری کی ہدایت کرتے ہوئے، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومتی اخراجات میں 30 فیصد سے بھی زیادہ کمی ہونی چاہیئے۔
’’لوگوں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے جو (انتخابی مہم میں) کہا اسے لوگوں نے سنجیدگی سے لیا ہے۔ یہ مینڈٹ معمولی بات نہیں۔ اس کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی کمر باندھ لیں اور سنجیدگی کے ساتھ ان ’غیر معمولی‘ چیلنجوں کا مقابلہ کریں۔‘‘
پاکستان اسٹیل ملز اور قومی فضائی ائیر لائن ’پی آئی اے‘ جیسے بڑے اداروں کو فعال بنانے کے لیے موثر اقدامات کرنے کے علاوہ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ قومی خزانے کو ان اداروں کے مالی خسارے سے بچانے کے لیے ان کی نجکاری بھی کی جا سکتی ہے۔
حلف اٹھانے کے بعد وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس سے پیر کو خطاب کرتے ہوئے، انھوں کہا کہ وزارتوں کے طے کردہ اہداف اور ان کی تکمیل کے لیے متعین وقت کا جائزہ لینے کے بعد ہی ان کی منظوری دی جائے گی۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اہداف پر پیش رفت سے متعلق جائزہ ہر تین ماہ کے بعد لیا جائے گا۔
’’غیر سنجیدہ رویے سے اب کام نہیں چلے گا۔ ہمیں اس نظام میں نئی روح پھونکنی ہوگی اور وہ تب تک ممکن نہیں جب تک ہم ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک (کے بارے میں) نا سوچیں اور صرف پاکستان کے مسائل پر نظر رکھتے ہوئے عہد نا کریں کہ ہمیں انہیں جلد از جلد حل کرنا ہے‘‘
انھوں نے اجلاس میں یہ واضح کیا کہ ان کی جماعت کو عوام نےجو ذمہ داری سونپی ہے وہ ’’اسے پورا کرنے میں ناکام نہیں ہونا چاہتے‘‘۔
’’یہ میرا کوئی ذاتی کام نہیں، قومی کام ہے، قومی ذمہ داری ہے...ایک ایک ممبر کو منشور پڑھنا چاہیے۔ ایک ایک سطر پڑھیں۔ اس میں آپ کے شعبے کے بارے میں سب کچھ لکھا ہے۔‘‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ ملک کو غربت و افلاس، شدت و انتہا پسندی، معاشی بدحالی، توانائی کے بحران، بد عنوانی اور عالمی سطح پر تنہائی جیسے ’’سنگین مسائل‘‘ کا سامنا ہے۔
انھوں نے وزراء پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ نا وہ خود بدعنوانی میں ملوث ہوں اور نا ہی کسی دوسرے کو ایسا کرنے کی اجازت دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بدعنوان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
وزراء کو کفایت شعاری کی ہدایت کرتے ہوئے، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومتی اخراجات میں 30 فیصد سے بھی زیادہ کمی ہونی چاہیئے۔
’’لوگوں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے جو (انتخابی مہم میں) کہا اسے لوگوں نے سنجیدگی سے لیا ہے۔ یہ مینڈٹ معمولی بات نہیں۔ اس کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنی کمر باندھ لیں اور سنجیدگی کے ساتھ ان ’غیر معمولی‘ چیلنجوں کا مقابلہ کریں۔‘‘
پاکستان اسٹیل ملز اور قومی فضائی ائیر لائن ’پی آئی اے‘ جیسے بڑے اداروں کو فعال بنانے کے لیے موثر اقدامات کرنے کے علاوہ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ قومی خزانے کو ان اداروں کے مالی خسارے سے بچانے کے لیے ان کی نجکاری بھی کی جا سکتی ہے۔