اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ کسی فرد واحد کے خلاف نہیں اور یہ عدالت کو فیصلہ کرنا ہے کہ تین نومبر 2007ء کو پاکستان کی ریاست کی توہین ہوئی یا نہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ عدالت ہی نے یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ تین نومبر کا اقدام آئین کے آرٹیکل چھ کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں۔
وزیراعظم ہاؤس سے ہفتہ کو جاری ایک سرکاری بیان کے مطابق نوازشریف نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’اگر قانون کی نظر میں ہر شہری برابر ہے تو ہر شہری کو عدالت کے سامنے جوابدہ بھی ہونا چاہیئے۔ یہ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے کہ وہ مجرم ہے یا معصوم۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ’’تاریخ کے اس موڑ پر اس بات کا فیصلہ بھی ہو جانا چاہیئے کہ ہم اپنا آئین، قانون اور اپنا نظام انصاف رکھنے والی ایک مہذب جمہوری ریاست ہیں یا نہیں۔‘‘
وفاقی حکومت نے تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے پر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کرنے کی استدعا کی تھی اور حکومت نے اس کے لیے تین رکنی خصوصی عدالت بھی تشکیل دے رکھی ہے جو کہ سابق صدر کے خلاف مقدمے کی سماعت کر رہی ہے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کرنے کی سزا موت اور عمر قید ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کے کسی سربراہ کے خلاف ایسی کارروائی کی جا رہی ہے۔
پرویز مشرف کو گزشتہ جمعرات کو خصوصی عدالت میں پیشی کے لیے جاتے وقت دل کی تکلیف کے باعث راولپنڈی میں امراض قلب کے فوجی اسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ انتہائی نگہداشت کے شعبے میں زیر علاج ہیں۔
سرکاری طور پر اُن کی صحت کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم سابق صدر کے ایک وکیل احمد رضا قصوری نے میڈیا کو بتایا تھا کہ پرویز مشرف کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
سابق صدر کی ناسازی طبع کے بعد ملک میں یہ قیاس آرائیاں گردش کرنے لگیں کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک منتقل کیا جا سکتا ہے اور اس ضمن میں سعودی عرب یا دیگر ممالک بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
لیکن پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعہ کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں پرویز مشرف کیس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
پرویز مشرف تاحال خصوصی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں اور اُن کے وکلاء عدالت کی تشکیل اور اس میں شامل ججوں کی تعیناتی پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔
پرویز مشرف گزشتہ سال مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے، بے نظیر بھٹو قتل کیس سمیت چار مقدمات میں اُن کی ضمانت منظور ہو چکی ہے لیکن اُن کے خلاف اس وقت سب سے بڑا مقدمہ غداری سے متعلق ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ عدالت ہی نے یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ تین نومبر کا اقدام آئین کے آرٹیکل چھ کے دائرے میں آتا ہے یا نہیں۔
وزیراعظم ہاؤس سے ہفتہ کو جاری ایک سرکاری بیان کے مطابق نوازشریف نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’اگر قانون کی نظر میں ہر شہری برابر ہے تو ہر شہری کو عدالت کے سامنے جوابدہ بھی ہونا چاہیئے۔ یہ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے کہ وہ مجرم ہے یا معصوم۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ ’’تاریخ کے اس موڑ پر اس بات کا فیصلہ بھی ہو جانا چاہیئے کہ ہم اپنا آئین، قانون اور اپنا نظام انصاف رکھنے والی ایک مہذب جمہوری ریاست ہیں یا نہیں۔‘‘
وفاقی حکومت نے تین نومبر 2007ء کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کو معطل کرنے پر پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ شروع کرنے کی استدعا کی تھی اور حکومت نے اس کے لیے تین رکنی خصوصی عدالت بھی تشکیل دے رکھی ہے جو کہ سابق صدر کے خلاف مقدمے کی سماعت کر رہی ہے۔
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی کرنے کی سزا موت اور عمر قید ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کے کسی سربراہ کے خلاف ایسی کارروائی کی جا رہی ہے۔
پرویز مشرف کو گزشتہ جمعرات کو خصوصی عدالت میں پیشی کے لیے جاتے وقت دل کی تکلیف کے باعث راولپنڈی میں امراض قلب کے فوجی اسپتال میں منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ انتہائی نگہداشت کے شعبے میں زیر علاج ہیں۔
سرکاری طور پر اُن کی صحت کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تاہم سابق صدر کے ایک وکیل احمد رضا قصوری نے میڈیا کو بتایا تھا کہ پرویز مشرف کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
سابق صدر کی ناسازی طبع کے بعد ملک میں یہ قیاس آرائیاں گردش کرنے لگیں کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک منتقل کیا جا سکتا ہے اور اس ضمن میں سعودی عرب یا دیگر ممالک بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
لیکن پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعہ کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں پرویز مشرف کیس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
پرویز مشرف تاحال خصوصی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں اور اُن کے وکلاء عدالت کی تشکیل اور اس میں شامل ججوں کی تعیناتی پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں۔
پرویز مشرف گزشتہ سال مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے، بے نظیر بھٹو قتل کیس سمیت چار مقدمات میں اُن کی ضمانت منظور ہو چکی ہے لیکن اُن کے خلاف اس وقت سب سے بڑا مقدمہ غداری سے متعلق ہے۔