پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ایک وفد کے ہمراہ آئندہ ہفتے نیویارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔
گزشتہ ماہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنھبالنے کے بعد خاقان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں پہلی بار شرکت کریں گے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے گزشتہ ماہ افغانستان کے متعلق پالیسی کے اعلان کے بعد وہ پہلی بار امریکہ جا رہے۔
پالیسی پر خطاب میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان میں موجود ہیں لیکن اسلام آباد کا موقف رہا ہے کہ پاکستان میں ایسی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں جو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہوں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے طرف سے جاری بیان کے مطابق نیویارک میں 18 ستمبر سے شروع ہونے والےجنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم عباسی دیگر ملکوں کی قیادت کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
تاہم بیان میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ کیا اس دورانوزیر اعظم عباسی کی امریکی انتظامیہ یا عہدیداروں کے ساتھ کوئی ملاقات طے ہےیا نہیں ۔
بین الاقوامی اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ایسی ملاقات ہوتی ہے تو باہمی اعتماد سازی کے لیے اہم ہو سکتی ہے۔
ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ " آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ایک دوسرے کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ایسے اقدامات لینے پڑیں گے مثلاً پاکستان کو یہ یقین دہانی کروانی پڑے گی کہ حقانی نیٹ ورک اور (طالبان) شوریٰ ہے وہ پاکستان میں موجود نہیں ہے۔۔۔ اور پاکستان کی سرزمین سے وہ کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔"
طلعت مسعود نے مزید کہا کہ "اور دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان افغانستان کی حکومت کی حمایت کرے اور اس کی کوشش بھی یہی ہے اس وقت اور اس کا مقصد یہ ہے کہ تعلقات اگر بہتر ہوں گے اور آپس کا اعتماد بہتر ہوگا تو پاکستان کی حکومت کا موقف ہے کہ پھر یہ بہت ممکن ہے کہ حالات افغانستان میں بھی بہت بہتر ہوسکتے ہیں اور پاکستان میں بھی۔"
اسلام آباد متعدد بار اس بات کا اعادہ کر چکا ہے کہ وہ افغانستان میں امن و استحکام کا متمنی ہے اور اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنے پر تیار ہے۔
طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ ا گر افغانستان اور خطے سے متعلق پاکستان اور امریکہ کے کچھ تحفظات ہیں تو انہیں بات چیت سے ہی حل کیا جا سکتا ہے اور ان کے بقول اس کے لیے دونوں ملکوں کو اپنے سفارتی چینلز کھلے رکھنے ہوں گے۔