امریکہ میں پولیس کے رویے پر اٹھنے والے سوالات امریکیوں کو سڑکوں پر لے آئے اور حال ہی میں پاکستان میں بھی کم از کم ایک صوبے میں لوگوں نے پولیس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
پشاور کے ایک نواحی علاقے کے ایک نوجوان پر پولیس کے تشدد کی ویڈیو پولیس نے خود بنائی اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔ اس نوجوان کا قصور کیا تھا؟ اس کی مجال کیسے ہوئی کہ اس نے پولیس کو اشتعال دلایا یہ سب خبروں میں آ چکا۔ مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہو گیا کہ کے پی کے کی وہ "خوش اخلاق اور ہمدرد" پولیس کو کیا ہو گیا؟ کیا یہ سب کہنے کی باتیں تھیں۔
ہم نے یہی جاننے کی کوشش کی اور بات ہوئی ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور گلگت بلتستان کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس تحسین انور سے۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایک واقعے پر آپ پوری پولیس کو موردِ الزام ٹھہرائیں تو یہ درست نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس کا محکمہ جب 1861 میں قائم کیا گیا تھا تو اسے کوئی سروس نہیں بلکہ ایک فورس بنایا گیا تھا جس کا مقصد آزادی کا مطالبہ کرنے والوں کو قابو میں رکھنا تھا۔ اسی کے تحت 1934 کے رولز طے کئے گئے اور اس کے اثرات اب بھی پائے جاتے ہیں۔
یہی بات کے پی کے میں ایریا سٹڈی سنٹر کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر سرفراز خان نے بھی کہی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فورس شمال مغربی سرحدی صوبے ہی میں بنائی گئی تھی جسے اب خیبر پختونخواہ کہا جاتا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ جس پولیس سٹیشن میں یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا یہ پشاور کے بالکل نواح میں واقع ہے اور نو آبادیاتی دور میں بھی موجود تھا۔
محمود جان پشاور میں ایک سینئیر صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کےپی کے کی تہذیب قبائیلی تہذیب ہے۔ یہاں سب کو معلوم ہے کہ کسی کی توہین ہو تو بدلہ ضرور لیا جاتا ہے اور یہ بات یہاں کی پولیس بھی جانتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کے پی کے کی پولیس دیگر علاقوں کی پولیس سے زیادہ مختلف نہیں ہے، جہاں چاہتی ہے اپنے اختیار سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ لیکن اس کی تعریفیں کچھ زیادہ ہی کر دی گئیں اور اسے بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا۔ چنانچہ اس کی مثال تعریفوں سے بگڑے بچے جیسی ہو گئی۔
ڈاکٹر سرفراز خان کہتے ہیں اصل مسلہ پولیس کی تربیت کا ہے اور جب تک اس کی اخلاقی تربیت نہ ہو اس کا عام شہریوں سے رویہ بہتر نہیں ہو سکتا۔
محمود جان کہتے ہیں کہ کے پی کےحکومت نے پولیس کے مالی پیکیج بہتر بنا کر انہیں سہولتیں دینے کی کوشش کی ہے مگر ان کی اخلاقی تربیت کا کوئی انتظام نہیں کیا ورنہ اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہ آتا اور ایک نوجوان کے ساتھ پولیس یہ سلوک نہ کرتی جو مذکورہ ویڈیو میں نظر آرہا ہے۔
سابق آئی جی پولیس تحسین انور کہتے ہیں پولیس کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے اس کے اوقاتِ کار اور اس کو دی جانے والی تنخواہوں کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔
وہ کہتے ہیں پولیس اہلکار چوبیس گھنٹے کے ملازم ہوتے ہیں، ان سے جتنا کام لیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں ان کی تنخواہیں بعض اوقات اتنی کم ہیں کہ وہ مکان کا کرایہ تک نہیں دے سکتے۔
وہ کہتے ہیں پولیس کی کارکردگی اور اصلاحات کے بارے میں جاننے کیلئے اس کا تاریخی پس منظر جاننا بہت ضروری ہے۔
وائس آف امریکہ سے ایک طویل گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ 1947 سے سن2002 تک پولیس کے بارے میں 25 کمشن اور کمیٹیاں بنائی گئیں مگر ان کی سفارشات پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا۔ ان سفارشات کو پولیس آرڈر 2002 کا نام دیا گیا جن کے تحت سفارش کی گئی کہ پولیس کو سیاسی اثرونفوذ سے پاک کیا جائے، یہ اپنے طور پر ایک خود مختار ادارہ ہو، جسے جمہوری طور پر کنٹرول کیا جائے اور جو جمہوری اداروں کو جواب دہ ہو۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان چار اہم سفارشات پر کبھی عمل نہیں کیا گیا اور اس کا سبب ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ جیسے "کزن شعبے"ہیں۔
اس کی تفصیل بتاتے ہوئے تحسین انور نے کہا کہ 1996 میں آزاد جوڈیشیری کے تحت ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ کا دفتر ختم کر دیا گیا اور ان کا جو ڈیشل اختیار عدالتوں کے پاس چلا گیا اور وہ جو پہلے پولیس کو کنٹرول کرتے تھے، ان کا اختیار جاتا رہا۔ ان سب کا ایک گروپ بن گیا اور جب بھی پولیس ریفارم کی کوئی بات آئی اس گروپ نے اسے روک دیا۔
تحسین انور کہتے ہیں کہ 2002 کے پولیس آرڈر میں بھی ان لوگوں نے اتنی ترامیم چاہیں کہ سب واپس ہو کر 1861 کے ایکٹ اور 1934 کے قانون کی جانب چلا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ 2018 کے اواخر میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے پولیس ریفارمز کیلئے ایک کمیٹی بنائی جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہوں اور سینئر ریٹائرڈ پولیس افسروں کو بھی شامل کیا گیا تاکہ 2002 کے قانون میں تبدیلی کی جائے اور پولیس کے عام آدمی کے ساتھ رویے کی جواب دہی کا ایک سسٹم بنایا جائے۔ اور جس پولیس اہلکار کے خلاف شکایت موصول ہو اس کو محکمے کے اندر ہی کاروائی کے ذریعے سزا دی جائے۔
لیکن تحسین انور کہتے ہیں ہم پولیس سربراہان نے خود ہی اس تجویز کو مسترد کیا کیونکہ پولیس کے اندر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ جس اہلکار کے خلاف شکایت ہو وہ اپیل میں چلا جاتا ہے اور پھر سزا سے بچ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تجویز پیش کی گئی کہ سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں ایک ایسا ادارہ ہونا چاہئے جو آزاد اور غیر جانبدار ہو، اس میں پولیس، سول سوسائٹی کے نمائندے، انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم کارکن، اکیڈمیہ اور قانونی ماہرین شامل ہوں جو پولیس کے خلاف شکایات کا جائزہ لیں اور اسے پولیس کمپلینٹ اتھارٹی کا نام دیا جائے۔ اور ایک پبلک سیفٹی کمشن ہو جو پولیس اہلکاروں کی ترقی اور تبادلوں کو دیکھے تاکہ اس میں سیاسی مداخلت نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ تجاویز اب بھی پولیس ریفارم میں شامل ہیں اور اس بارے میں تین سو چار صفحات کی رپورٹ بن کر تیار ہے مگر اس پر کوئی عمل نہیں ہو رہا کیونکہ اس میں وہی لوگ رکاوٹ ہیں جن کے مفادات پر زد پڑتی ہے۔
تحسین انور کہتے ہیں عام آدمی کو شکایت ہوتی ہے کہ اس کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، ملزم کہتا ہے جرم تو ہوا مگر پولیس تشدد کرتی ہے، رشوت مانگتی ہے لیکن ان شکایات کو دور کرنے کیلئے ضروری ہے کہ شہری اور دیہی پولیس کا قانون فرق ہو۔ فی الوقت جو قانون ہے وہ رورل پولیسنگ سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ کریمنل جسٹس سسٹم جس میں عدالتیں ہیں، پراسیکیوشن ہے، جیل اور پولیس ہے ان سب کے درمیان بہتر ورکنگ ریلیشنشپ ہونی چاہئے۔
انہوں نے کہا سب سے زیادہ ضرورت پولیس کو سیاسی نمائندوں کے اثر سے آزاد رکھنے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کے پی کے پولیس میں اصلاحات کے بعد پنجاب پولیس میں بھی ریفارم کی کوشش کی گئی مگر سیاسی عمل دخل کی وجہ ہی سے یہ ممکن نہ ہو سکا کیونکہ صوبائی ہو یا قومی اسمبلی اس کے ارکان کا یہی کہنا ہوتا ہے کہ ان کے الیکشن جیتنے کا کیا فائدہ اگر تھانیدار بھی ان کی مرضی کا نہ ہو۔
پشاور کے ایریا سٹڈی سنٹر کے سابق ڈئریکٹر جنرل ڈاکٹر سرفراز خان اور پشاور کے سینئیر صحافی محمود جان دونوں نے کہا کہ پولیس کی تربیت درست نہیں ہوتی۔ اور یہ کہ پولیس کی اخلاقی تربیت کی بے حد ضرورت ہے۔
تحسین انور کہتے ہیں کہ پولیس کی تربیت کے کئی مراحل ہیں۔ جو لوگ سی ایس ایس کر کے آتے ہیں ان کی کچھ ٹریننگ تو ہو چکی ہوتی ہے کچھ نیشنل پولیس اکیڈیمی میں ٹریننگ ہوتی ہے اور پھر بیرونِ ملک بھی ٹریننگ کیلئے جاتے ہیں۔ جو لوئر رینکس ہیں جیسا کہ کانسٹیبل یا سب انسپکٹر اور انسپکٹر، ان کی ایک ٹریننگ تو بھرتی کے وقت ہوتی ہے اور پھر دورانِ ملازمت جب ترقی کا وقت آتا ہے تو بھی ان کی لئے ٹریننگ ضروری ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں اب تک توجہ پولیس کی جسمانی تربیت اور انہیں قانون سکھانے پر تھی لیکن اب نئے ماڈیولز میں ان کے کردار کی تعمیر اور اخلاقیات کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ انہیں احساس ہو کہ وہ خدمت کیلئے آئے ہیں، کسی پر حکومت کرنے کے لئے، کسی کی توہین یا کسی سے زیادتی کرنے کیلئے نہیں آئے۔
گلگت بلتستان کے سابق آئی جی اور ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل تحسین انور کہتے ہیں وہ اس وقت ایک پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جس کا نام ہے"پولیس عوام ساتھ ساتھ"۔
وہ کہتے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ پولیس اور عوام کے درمیان فاصلے کو کم کیا جائے اور باہمی اعتماد میں کمی کو دور کیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ عام آدمی کو پولیس کی تصدیق اور دیگر بعض معاملات کیلئے پولیس سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ اسے پولیس اسٹیشن جانے سے بچانے کیلئے بڑے شہروں میں فرنٹ ڈیسک کی طرز پر ایسے دفاتر قائم کئے جا رہے ہیں جہاں جا کر شہری ضروری دستاویزات حاصل کر سکتے ہیں۔
تحسین انور نے بتایا کہ پاکستان پولیس میں خواتین افسروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے خواتین صرف ہیڈ کانسٹیبل ہی ہوا کرتی تھیں مگر اب سی ایس ایس کر کے پولیس میں آ رہی ہیں اور ایک خاتون آئی جی پولیس کے عہدے تک بھی پہنچی ہیں۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس تحسین انور کا کہنا تھا کہ پولیس بھی کمیونٹی کا حصہ ہے۔ اس کی مشکلات کا احساس بھی کیا جانا چاہئے۔۔۔آخرموٹر وے پولیس بھی تو پاکستان ہی کی پولیس ہے۔