پشاور سے ملحقہ قبائلی ضلع خیبر میں چند روز قبل مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے نوجوان کے ورثا کا احتجاجی دھرنا جمعے کو بھی جاری رہا۔
صوبہ خیبر پختنوخوا کے ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں چار روز سے جاری مظاہرے میں شامل مقامی قبائلیوں کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور اراکین پارلیمان نے شرکت کی اور اس مبینہ پولیس مقابلے کی آزاد عدالتی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا۔
مبینہ پولیس مقابلے میں پولیس کا نشانہ بننے والے چار افراد میں سے عرفان اللہ کا تعلق قبائلی علاقے باڑہ سے تھا جن کی لاش پچھلے ہفتے منگل کو لواحقین کے حوالے کی گئی تھی۔
دیگر تین افراد میں سے ایک کا تعلق ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے قبیلے اکا خیل سے تھا جب کہ مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے دیگر دو افراد کا تعلق پشاور کے نواحی علاقے ادیزی سے تھا۔
عرفان اللہ کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ رواں ماہ یکم جون کو پر اسرار طور پر غائب ہو گیا تھا اور انہیں شبہہ ہے کہ وہ اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں تھا۔
عرفان اللہ پشاور یونیورسٹی سے ڈبل ماسٹر ڈگری ہولڈر تھا اور انہوں نے چند روز قبل محکمہ تعلیم میں استاد کی آسامی کے لیے ٹیسٹ اور انٹرویو بھی دیے تھے اور اُن کی ہلاکت کے روز خاندان والوں کو ان کا بحیثیت استاد تقرر نامہ موصول ہوا تھا۔
رشتہ داروں اور سیاسی رہنماؤں کے مطابق عرفان اللہ کسی بھی قسم کی دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھا۔
ایک پولیس عہدے دار نے عرفان اللہ کے لواحقین کی طرف سے کیے گئے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ رواں ماہ 22 جون کی شام کو انسداد دہشت گردی پولیس نے مخبروں کی اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے ان چار مبینہ دہشت گردوں کو ایک مختصر پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا تھا۔
پولیس عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چارروں دہشت گرد متنی کے علاقے میں ایک پولیس موبائل وین پر حملہ کرنے والے تھے۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ عرفان اللہ کا تعلق دہشت گردوں کے ایک منظم گروہ سے تھا جو پشاور میں بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی کئی وارداتوں میں ملوث تھا۔
اُن کے بقول یہ گروہ سرحد پار افغانستان کے جاسوسی ادارے ‘این ڈی ایس’ کے سربراہ سے بھی کئی بار ملا تھا اور انہی کے ایما پر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہا ہے۔
اس سے قبل بھی ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے عدنان شینواری کی گولیوں سے چھلنی لاش پشاور کے نواحی علاقے ریگی میں رواں سال 21 فروری کو برآمد ہوئی تھی۔
عدنان شنواری لگ بھگ تین ماہ سے گھر سے پر اسرار طور پر غائب تھا۔
عدنان شینواری کی لاش کے ساتھ چارسدہ ہی کے زاہد اللہ کی لاش بھی برآمد ہوئی تھی جو گھر سے تقریباً دو مہینے سے غائب تھا۔
لنڈی کوتل کے قریب سیکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد گھروں کی تلاشی مہم کے دوران ایک نوجوان کو گھر سے اُٹھایا گیا تھا اور اس نوجوان کی تشدد زدہ لاش پچھلے سال 23 دسمبر کو لواحقین کے حوالے کرتے ہوئے اُنہیں کہا گیا کہ یہ بھاگتے وقت گرنے سے ہلاک ہوا ہے۔
لیکن لواحقین اور مقامی قبائلیوں نے حکام کے اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے احتجاج شروع کیا تھا اور بعد میں لواحقین کو معاوضہ دلوایا گیا۔
رواں ماہ دو جون کو سوات اور بونیر کو ملانے والے پہاڑی سلسلے ایلم میں ہونے والی ایک کارروائی میں انسداد دہشت گردی پولیس نے تین مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا۔ ان کا تعلق کالعدم شدت پسند تنظیم ‘تحریک طالبا ن سوات ہی سے تھا۔
سرحد پار افغانستان سے کالعدم شدت پسند تنظیم ‘تحریک طالبان پاکستان’ کے ترجمان نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تینوں ہلاک ہونے والے افراد سات ماہ قبل گرفتار ہوئے تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سرحد پار افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے، بین الافغان مذاکرات اور پشاور ہائی کورٹ کے فوجی عدالتوں سے سزایافتہ مبینہ دہشت گردوں کی بریت اور رہائی پانے کے بعد اس قسم کے پولیس مقابلوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ان کے مطابق سوات، شمالی وزیرستان، خیبر اور دیگر علاقوں سے فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں سرحد پار افغانستان فرار ہونے والے دہشت گرد اب واپس آرہے ہیں جس کی وجہ سے دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔