رسائی کے لنکس

خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کا مقصد تعلقات توڑنا نہیں


وزیر خارجہ حنا ربانی کھر
وزیر خارجہ حنا ربانی کھر

پاکستانی سفارت کاروں کے اس غیر معمولی اجلاس میں پہلی مرتبہ عسکری عہدے داروں کی شرکت پر بعض حلقوں کی طرف سے نکتہ چینی کو مسترد کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’پالیسیاں بالآخر سیاست دان بناتے ہیں لیکن اداروں کا نقطہ نظر ان میں آنا چاہیئے اور آنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘

وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی کے خد و خال کے از سر نو تعین کا مقصد’’جارحانہ‘‘ حکمت عملی اختیار کرنا یا امریکہ سے تعلقات ختم کرنا نہیں بلکہ اُنھیں پاکستان کے قومی مفادات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔

’’ہم نے اس وقت کسی سے تعلقات توڑنے کی بات نہیں کی، صرف اتنا کہا ہے کہ ہم نے اپنے قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے تعاون کی شرائط کا از سر نو جائزہ لینا ہے (اور) یہ ہمارا بنیادی حق ہے۔‘‘

منگل کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے مزید کہا کہ عالمی تناظر میں ’’بنیادی مقاصد‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حسب حال ہونا ضروری ہے۔

گزشتہ ماہ مہمند ایجنسی میں سرحدی چوکیوں پر نیٹو کے حملے میں 24 فوجیوں کی ہلاکت پر اپنے سخت رد عمل میں پاکستان نے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے اُن میں نیٹو اور امریکہ کے ساتھ تعلقات سمیت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کی موجودہ شرائط پر نظرِ ثانی بھی شامل ہے۔

اس سلسلے میں امریکہ، برطانیہ، افغانستان، بھارت اور چین سمیت ایک درجن سے زائد اہم ملکوں میں پاکستان کے سفراء کا ایک خصوصی اجلاس بھی اسلام آباد میں منعقد کیا گیا تاہم اس میں کیے گئے فیصلوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو کوئی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں۔

صحافیوں سے اپنی گفتگو میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا کہ اجلاس کا مقصد اس میں مدعو کیے گئے سفارت کاروں کی تجاویز کی بنیاد پر پاکستان کی وزارت خارجہ کا ایک متفقہ نقطہ نظر مرتب کرنا ہے۔

’’ہم نے علاقائی سلامتی کی صورت حال کا جائزہ لیا ہے، پاکستان کے بنیادی مقاصد اور قومی مفادات کا تعین کرنے کی کوشش کی ہے، اور پھر جو (تعلقات پر) نظر ثانی ہونی ہے اس کو دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کس طرح اور کس حد تک ہونی چاہیئے۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ وزارت خارجہ کے اجلاس کی حتمی دستاویز پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی رائے لینے کے بعد اُسے قومی سلامتی سے متعلق پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا جسے نیٹو اور امریکہ کے ساتھ پاکستان کے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں سفارشات تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

پاکستانی سفیروں کے اجلاس کے اختتام پر وزیر اعظم گیلانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حالیہ نیٹو حملے کی وجہ سے افغانستان میں پائیدار امن کی کوششوں میں مصروف فریقین کے درمیان قریبی تعاون کے امکانات کو ’’بڑا دھچکہ‘‘ لگا ہے۔

’’ہم توقع کرتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو کی تحقیقات کے نتیجے میں حقائق اور اُن پریشان کن سوالات کے جوابات بیان کیے جائیں گے جو ہماری اپنی تحقیقات میں سامنے آئے ہیں۔‘‘

پاکستانی فوج کے سینیئر عہدے داروں بشمول خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے بھی شرکاء کو نیٹو حملے کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال اور قومی و علاقائی سلامتی کے اُمور پر تفصیلی بریفنگ دی جس میں مقامی میڈیا کے مطابق اس الزام کو دہرایا گیا کہ نیٹو کا حملہ ’’دانستہ‘‘ طور پر کی گئی کارروائی تھی۔

پاکستانی سفارت کاروں کے اس غیر معمولی اجلاس میں پہلی مرتبہ عسکری عہدے داروں کی شرکت پر بعض حلقوں کی طرف سے نکتہ چینی کو مسترد کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’’پالیسیاں بالآخر سیاست دان بناتے ہیں لیکن اداروں کا نقطہ نظر ان میں آنا چاہیئے اور آنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘

پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم اُمور خصوصاً کشمیر اور افغانستان سے متعلق حکمت عملی میں تبدیلیاں فوج کی رضا مندی کے بغیر نامکمن تصور کی جاتی ہیں اور پارلیمان میں دو تہائی اکثریت والی حکومتوں کو بھی اس روایت کو بدلنے کی کوششوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

مہمند ایجنسی میں نیٹو حملے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے پہلے سے کشیدہ تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہو گئے ہیں اور مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دونوں جانب سے سخت بیان بازی اُن کو شدید مشکلات سے دوچار کر سکتی ہے۔

نیٹو کے فضائی حملے کے بعد افغانستان میں تعینات اتحادی افواج کو پاکستان کے راستے رسد کی ترسیل منقطع کرنے کے علاوہ حکومت نے صوبہ بلوچستان میں شمسی ایئر بیس کو بھی امریکہ سے خالی کروا لیا ہے۔

مزید برآں سرحدی علاقوں میں تعینات پاکستانی فوجیوں کو افغانستان کی جانب سے مستقبل میں کسی نیٹو حملے کا بھرپور جواب دینے کے احکامات جاری کرتے ہوئے سرحد پر اطلاعات کے مطابق فضائی دفاعی نظام بھی فعال کیا جا چکا ہے۔

امریکہ افغان جنگ میں پاکستان کے کلیدی کردار کا اعتراف کرتے ہوئے دوطرفہ تعلقات کو جلد از جلد معمول پر لانے کی اہمت پر زور دے رہا ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ نیٹو کا حملہ ’’غیر ارادی‘‘ تھا اور اس کی تحقیقات مکمل ہونے تک اس پر باضابطہ معذرت کے پاکستانی مطالبات قبل از وقت ہیں۔

XS
SM
MD
LG