بچوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں حالیہ سیلاب سے پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے اور گذشہ سال کی نسبت رواں سال کے دوارن اس کے زیادہ کیس سامنے آئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2009ء کے دوران پولیو کے نواسی کیس سامنے آئے جبکہ 2010ء میں ایک سو چھبیس بچے اس بیماری سے متاثر ہوئے اور یہ وائرس اب تیزی سے پھیلتا نظر آ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں ادارے کے پاکستان میں خصوصی نمائندے ڈینیل ٹول نے بتایا کہ اس اضافے کی بنیادی وجوہات میں سیلاب زدہ علاقوں میں صفائی ستھرائی کی خراب صورتحال ، ایک ہی مقام پر متاثرین کا ہجوم ، اور تباہی کے باعث بچوں کو پولیو سے بچاو کے قطرے پلانے کی مہم میں پیدا ہونے والی رکاوٹ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ” کئی بچے پولیوسے حفاظت کے قطرے پینے کے با وجود بھی اس بیماری کا شکار اس لیے ہو گئے کہ اسحال کی وجہ سے ان کے پیٹ میں دوا نے کا اثر نہیں رہا۔“
خصوصی نمائندے کا کہنا تھا کہ صوبہ خیبر پختون خواہ اور فاٹا کے علاقوں میں سلامتی کی خراب صورتحال کی وجہ سے بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے میں رکاوٹ بھی پولیو کے پھیلاؤ کی ایک اہم وجہ ہے۔
پاکستان دنیا کے ان چار ملکوں میں سے ایک ہے جہاں سے ابھی تک پولیو کے مرض کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا ہے۔یونیسیف کے مطابق حالیہ سیلاب نے اس مرض کے خاتمے کے لیے پاکستان کی طرف سے اب تک ہونے والی پیش رفت کو متاثرکیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب کے چار ماہ بعد بہت سے متاثرین اگرچہ اپنے علاقوں کو لوٹ چکے ہیں لیکن اس وقت بھی لاکھوں کی تعداد میں سیلاب زد گان چھت اور روز گار سے محروم ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق ملک کے جنوبی حصے سے ہے جہاں سیلابی پانی اترنے کی رفتار رپورٹ کے مطابق سست ہے۔
یونیسیف نے اس امر پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ آئندہ سرد موسم کے دوران متاثرہ علاقوں میں بچوں کو شدید خطرہ لاحق ہے اور آگے چل کر ان میں سانس کی بیماریوں اور غذائی قلت میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے جو پاکستان میں بچوں کی ہلاکتوں کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یونیسف متاثرہ آبادی خاص طور پر بچوں کو سردی سے محفوظ رکھنے اور پولیو کی روک تھام کے لیے سرگرم ہے۔ تاہم رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ سیلاب سے تباہ کاری بہت بڑے پیمانے پر ہوئی ہے اور اس کے اثرات آنے والے برسوں کے دوران بھی محسوس کیے جاتے رہیں گے۔