صوبہ سندھ میں تین روزہ انسدادِپولیو مہم کا آغاز ہوچکا ہے اور اس دوران پانچ سال سے کم عمر65 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔ جسمانی طور پر معذور کردینے والی اس بیماری کے خاتمے کے لیے صوبہ سندھ میں یہ اس مہم کا چوتھا مرحلہ ہے ۔
صوبائی حکام کے مطابق اس سال کے آغاز سے اب تک صرف سندھ میں پولیو کے گیارہ کیسز سامنے آچکے ہیں جن میں تین کراچی سے اور باقی متاثر ہونے والے بچوں کا تعلق ٹھٹھ، بدین ،ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار اور سانگھڑسے ہے جبکہ پولیو کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے ایک بین الا قوامی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک پاکستان میں 33 پولیو کے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔
حکومت ِ پاکستان نے گذشتہ سال اکتوبر میں اعلان کیا تھا کہ 2011 ء ملک میں پولیو کے خاتمے کا سال ہوگا لیکن یہ حکومت اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں دونوں کے لیے پریشان کن امر ہے کہ پولیو پر قابو پانے کی کوششوں کے باوجود مسلسل نئے کیسز منظر عام پر آرہے ہیں۔ ایسے میں سال ملک سے پولیو کے خاتمہ کا خواب ممکن ہونا بظاہر ناممکن نظر آتا ہے لیکن ڈاکٹر مظہر علی خمیسانی جو سندھ میں پولیو پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں کہتے ہیں کہ ان تمام کیسز کے باوجود یہ ہدف پانا ممکن ہے ۔
انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ضروری نہیں کہ منظرِعام پر آنے والے واقعات آج کے ہوں۔”یہ تو جاری رہتے ہیں ۔ اس کے لیے تو مسلسل مہم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دو راوٴنڈ کے بعد جا کر یہ ختم ہوتے ہیں اس لیے فوری نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ “ان کا کہنا تھا کہ اب بالائی سطح سے لیکر یونین کونسلوں تک سب کی اس میں شمولیت ہوگئی ہے اس لیے وہ پر امید ہیں۔
حکومت سندھ نے پولیو کے خاتمہ کے لیے 20 ہزار موبائل ٹیمیں تشکیل دی ہیں اور گھوٹکی ،سکھر، خیرپور، لاڑکانہ سمیت جن علاقوں میں نئے واقعات منظر عام پر آئے ہیں انھیں ہائی رسک قرار دیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر مظہر کہتے ہیں ان ٹیموں کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کے ساتھ ساتھ ہر وہ اقدامات اٹھائے جار ہے ہیں جس سے معاشرے کو اس مرض سے پاک کیا جاسکے۔
پاکستان دنیا کے ان چار ممالک میں شامل ہے جہاں کروڑوں روپے خرچ ہونے کے با وجود بھی پولیو جیسے موذی مرض کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا ہے ۔ ملک میں پولیو کے خاتمے کی مہم کا آغاز 1995 میں ہوا جس کا مقصد پاکستان کوسال 2000 تک پولیو سے پاک کر دینا تھا مگر یہ ہدف ٹلتے ٹلتے 2011 ء تک آ پہنچا ہے اور پاکستان ابھی تک پولیو کی صفر سطح تک نہیں پہنچ سکا ہے ۔ پاکستان میں1988کے دوران پولیو کے پندرہ ہزار کیس سامنے آئے تھے جبکہ 2004 میں یہ تعداد گھٹ کر اکیاون ہو گئی تھی ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2005 میں ملک بھر میں اٹھائیس بچے پولیو کا شکار ہوئے اور 2006 میں یہ تعداد انتالیس تھی ۔ 2009 ء میں 89 واقعات کی تصدیق ہوئی۔
اگرچہ گذشتہ سال جولائی تک ملک میں پولیو کے 27 واقعات سامنے آئے لیکن پاکستان میں آنے والے تاریخ کے بدترین سیلاب کے بعد یہ صورتحال مزید ابتر ہوگئی اور سال کے اختتام پر یہ تعداد 144 تک جا پہنچی۔
سرکاری حکام کے مطابق پاکستان میں پولیو کے سب سے زیادہ واقعات فاٹا اور خیبر پختونخواہ میں سامنے آتے ہیں۔ گذشتہ سال فاٹا میں74 ، خیبر پختونخواہ میں 24 ،سندھ میں 25 ،بلوچستان میں 12 اور پنجاب میں سات پولیو کے واقعات کی تصدیق ہوئی۔ پولیو کیسز میں اضافہ کی بنیادی وجہ دور دراز علاقوں تک رسائی کے دوران ویکسی نیشن کو محفوظ رکھنے کے لیے موزوں د رجہ حرارت کا برقرار نہ رہنا، امن و امان کی خراب صورتحال اور اس مہم کو کامیاب بنانے میں مقامی لوگوں کا رویہ اب بھی رکاوٹ ہے۔
اگرچہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوششیں حکومتی سطی پرجاری رہتی ہیں تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ فاٹا میں اب بھی تقریباً ہر تیسرے بچے کی گذشتہ دوسال سے ویکسی نیشن تک رسائی نہیں ہوسکی ہے ۔ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ ویکسی نیشن کے پروگرام کو موثر بنا کر اور لوگوں کو مسلسل آگاہ کرکے ہی اس موذی مرض سے نجات ممکن ہے۔