وفاقی وزارت صحت کے مطابق رواں سال 12مارچ تک پاکستان میں پولیو سے15بچے متاثر ہوچکے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ کیس فاٹا میں رپورٹ ہوئے جہاں اس وائرس نے نو بچوں کو متاثر کیا۔
حکومت پاکستان نے اعلان کر رکھا ہے کہ 2011ء میں ملک سے پولیو کا خاتمہ اُس کی اولین ترجیح ہے اور اس کے لیے ایک ’قومی ہنگامی کمیشن پلان‘ تیا رکیا گیا ہے جس پرعمل درآمد کا باقاعد ہ آغاز صدر آصف علی زرداری نے 24 جنوری کو کیا تھا۔
اس ہنگامی منصوبے کے تحت ملک بھر میں پولیو سے بچاؤ کی مہم کی نگرانی کے لیے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں ایک خصوصی سیل بھی بنایا گیا ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق پاکستان میں پولیو سے سب سے زیادہ متاثر ہ 33اضلاع کے علاوہ نقل مکانی کرنے اور خانہ بدوش آبادیوں کے لیے ایک خصوصی پلان بھی بنایا گیا ہے جب کہ سلامتی کی صورت حال کے پیش نظر ناقابل رسائی علاقوں تک پہنچنے کے لیے فرنٹیئرکور کی معاونت بھی حاصل کی گئی ہے۔
ورلڈ بینک نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ رواں ہفتے بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر تین کروڑ بیس لاکھ بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے کی مہم کے لیے چارکروڑ 10لاکھ ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے۔
2010ء میں پاکستان میں پولیو سے 144بچے متاثر ہوئے تھے جن میں سے ملک کے قبائلی علاقوں میں 74، صوبہ خیبر پختون خواہ میں 24 ، سندھ میں 27، بلوچستان میں 12 اور پنجاب میں سات کیس رپورٹ ہوئے۔ وزارت صحت کے مطابق 2010ء میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے ملک کے کئی علاقوں میں پولیو سے متعلق خطرات کے پھیلاؤ میں شدت آگئی ہے جس کی وجہ سے شمالی سندھ میں پولیوں سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوااور اس کے اثرات ناصرف صوبہ سندھ بلکہ اس سے باہر تک پھیل گئے ہیں۔
پاکستان دنیا کے اُن چار ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کئی سالوں کی کوششوں کے باوجود جسمانی معذوری کا سبب بننے والی اس بیماری کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک میں افغانستان بھی شامل ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ افغان سرحد کے آر پار قبائلی خاندانوں کی نقل و حمل پولیو وائرس کی منتقلی کی ایک بڑی وجہ ہے۔