پاکستان میں حالیہ دونوں میں مزید تین بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق کے بعد رواں برس یہ تعداد 102 ہو گئی ہے۔
گزشتہ برس یہ تعداد 93 تھی جب کہ 2013ء کے پہلے سات ماہ میں صرف 21 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
2012ء میں صوتحال اتنی تشویشناک نہیں تھی اور پورے سال میں پولیو کے صرف 58 کیسز رپورٹ ہوئے۔
نئے رپورٹ ہونے والے کیسز میں سے ایک کا تعلق بلوچستان کے علاقے قلعہ عبداللہ سے ہے جب کہ ایک جنوبی وزیرستان کی تحصیل وانا اور ایک خیبر ایجنسی کے علاقے باڑہ سے رپورٹ ہوا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 20 ماہ میں بلوچستان سے رپورٹ ہونے والا یہ پہلا کیس ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ دیگر دو ملکوں میں نائیجیریا اور افغانستان شامل ہیں۔
پاکستان میں انسداد پولیو سے وابستہ عہدیدار یہ کہتے آئے ہیں کہ اس وائرس کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں اور گزشتہ ماہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی وجہ سے وہاں سے ہونے والی نقل مکانی کو عہدیدار نعمت غیرمترقبہ قرار دیتے ہیں۔
کیونکہ شدت پسندوں کی طرف سے عائد کردہ پابندی کی وجہ سے انسداد پولیو کی ٹیموں کی اس علاقے میں رسائی نہیں تھی اور گزشتہ دو سالوں میں شمالی وزیرستان میں بچوں کو ایک بار بھی پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے تھے۔
نقل مکانی کر کے آنے والوں کو خیبرپختونخواہ کے بندوبستی علاقوں میں داخلے کے وقت پولیو ویکسین پلائی گئی اور بعد ازاں جہاں ان لوگوں نے قیام کیا وہاں بھی حکام کے بقول انسداد پولیو کی مہم شروع کی گئی۔
اب تک رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز میں سے اکثریت کا تعلق قبائلی علاقوں خصوصاً وزیرستان سے ہی ہے۔
2012ء کی نسبت گزشتہ سال اور پھر اب رواں برس پولیو کیسز کی تعداد میں اضافے کی وجہ عہدیداروں کے بقول انسداد پولیو کی ٹیموں پر جان لیوا حملوں اور سلامتی کے خدشات کے باعث بار بار تعطل کا شکار ہونے والی کوششیں ہیں۔
عالمی ادارہ صحت یہ کہہ چکا ہے کہ پولیو وائرس پر قابو پانے کے لیے شمال مغربی علاقے میں ایک ماہ کے دوران ہر بچے کو کم ازکم پانچ مرتبہ پولیو ویکسین پلائی جانی چاہیے، بصورت دیگر خاطر خواہ نتائج برآمد ہونے