متحدہ قومی موومنٹ کی حکومت سے علیحدگی کے بعدامکان ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ملکی سیاست ایک نئی کروٹ لے گی اورحکومت کے خلاف' گرینڈ اپوزیشن ' تشکیل پاجائے گی ۔ظاہر ہے کہ گرینڈ اپوزیشن کی تشکیل کا مقصد حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کے علاوہ اورکچھ نہیں ۔ تاہم مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے اختلافات نے حالات یکسر تبدیل کر دیئے ہیں۔اپوزیشن کو مزید کمزور کرنے کے لئے حکمران اتحاد کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ق کی کوششوں میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے ۔
سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی ایم کیو ایم نے حکومت کا ساتھ چھوڑا تواس کے لئے اقتدار میں رہنا مشکل ہو گیا تاہم اس مرتبہ حالات کچھ مختلف ہیں ۔ایم کیوایم کی حکومت سے علیحدگی سے قبل ہی حزب اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ ن اور جے یو آئی (ف) کے درمیان سینٹ میں قائد حزب اختلاف کے تقرر پرشدید اختلافات ہیں۔
امید کی جا رہی تھی کہ مسلم لیگ ن ایوان میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہونے کے ناطے ایم کیو ایم کی جانب ہاتھ بڑھائے گی تاہم تاحال دونوں جماعتوں کے درمیان کسی رابطہ کی کوئی اطلاع نہیں ۔ دوسری جانب جے یو آئی اس تمام تر صورتحال میں بھرپور فائدہ اٹھانے کوششوں میں مصروف ہے ۔جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے مسلسل رابطے میں ہیں اور بظاہر ان کی کوششیں گرینڈ اپوزیشن کے قیام کے لئے ہیں تاہم اسی دوران انہوں نے سینٹ میں ایم کیو ایم کے چھ اراکین کی حمایت بھی اپوزیشن لیڈر غفور حیدری کے لئے حاصل کر لی ہے جو مسلم لیگ ن کے لئے بڑا دھچکا ہے ۔
مولانا فضل الرحمن نے جماعت اسلامی کے رہنما قاضی حسین احمد سے بھی رابطہ کیا اور دونوں میں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے مشترکہ کاوشیں کرنے پر اتفاق کیا گیا ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس تمام صورتحال میں جے یو آئی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہوا جو بڑھتے ہوئے اختلافات کا واضح ثبوت ہے ۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے ”پاکستان بچاؤ ، حکومت ہٹاؤ “ تحریک چلا رکھی ہے ، بظاہر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں بھی سخت اختلافات دیکھے جا رہے ہیں اور دونوں جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا مشکل نظر آ رہا ہے ۔
ماہرین کے مطابق مولانا فضل الرحمن کی ایم کیو ایم کی سینیٹ میں حمایت مسلم لیگ ن سے کسی صورت ہضم نہیں ہو گی ۔ مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم کے درمیان پہلے ہی لاتعداد معاملات پر سنگین اختلافات ہیں اور اس پر ایم کیو ایم کا اپوزیشن کے دوسرے دھڑوں میں ملاپ سے دونوں جماعتوں کے درمیان دوریاں مزید بڑھیں گی ۔ اگر دیکھا جائے تو اپوزیشن میں اختلافات کی واحد وجہ مسلم لیگ ن اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے درمیان ان بن ہے ۔
ادھر حکمراں جماعت پیپلزپارٹی نے اس تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن میں ہلچل ڈالنے کے لئے حکمراں اتحاد کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ق کو میدان میں اتار دیا ہے اور اسی سلسلے میں چوہدری شجاعت حسین ، چوہدری پرویز الٰہی و دیگر کے ہمراہ مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کے لئے جا پہنچے ۔چوہدری شجاعت نے مولانا فضل الرحمن پر زور دیا ہے کہ اگر مسلم لیگ ن کی جانب سے حکومت کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھایا جاتا ہے تو وہ ہر گزاس کا حصہ نہ بنیں ۔
اپوزیشن کے درمیان اختلافات اور مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ہونے والی ملاقات سے گرینڈ اپوزیشن کا قیام خطرے میں پڑ گیا ہے اور مبصرین اس بات پر متقق نظر آ رہے ہیں کہ اگر مسلم لیگ ن کی جانب سے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے لئے اپنے موقف میں لچک نہیں پیدا کی گئی تو حکمراں جماعت پیپلزپارٹی نہ صرف اپنی مدت بلاکسی روک ٹوک کے پوری کر لے گی بلکہ آئندہ عام انتخابات میں بھی وہ بھر پور فائدہ اٹھا ئے گی ۔