رسائی کے لنکس

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بدلنے لگا، ن لیگ کے لئے کڑا وقت


پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بدلنے لگا، ن لیگ کے لئے کڑا وقت
پاکستان کا سیاسی منظر نامہ بدلنے لگا، ن لیگ کے لئے کڑا وقت

پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلوں کی ہوا چل پڑی ہے ۔ ایک طر ف تقریباً پانچ مہینے کی طویل جدوجہد کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی ، ملک کی تیسری بڑی جماعت مسلم لیگ ق کو اپنے ساتھ حکومت میں شامل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے تو دوسری جانب ایم کیو ایم کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔حکومت میں شمولیت کی غرض سے مذاکرات کے لئے پیر کو متحدہ قومی موومنٹ کے ایک وفد نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی ہے۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے امید ظاہر کی ہے کہ ق لیگ کے بعد ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) بھی حکومت میں شامل ہوجائے گی ۔ ایم کیو ایم کے وفد کی سربراہی متحدہ کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر فاروق ستارنے کی جبکہ ملاقات میں وزیر داخلہ رحمن ملک ، بابر خان غوری ، ڈاکٹر صغیر ،وسیم آفتاب ، عادل صدیق سمیت دیگر شامل تھے ۔

دوسری جانب ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے لئے کڑا وقت شروع ہوگیا ہے۔ ایک جانب تووہ کچھ سیاسی غلطیاں کربیٹھی ہے تو دوسری جانب اس نے نہ صرف تمام سیاسی طاقتوں بلکہ خفیہ ایجنسیوں کے خلاف بھی اعلان جنگ کر رکھا ہے ۔

سیاسی مبصرین پی پی اور ق لیگ کے اشتراک کو پی پی کی سب سے بڑی کامیابی تصورکررہے ہیں ۔ان کے تئیں پی پی نے اس کامیابی کے پس منظر میں بیک وقت کئی کامیابیاں حاصل کرلی ہیں ۔ ایک جانب جون میں پیش کیا جانے والاوفاقی بجٹ پاس کرانے میں پی پی کو بھر پور مدد ملے گی تو دوسری جانب اپنی مدت پوری کرنے میں حائل اس کی تمام مشکلات بھی دور ہو جائیں گی۔دوم، اس کامیابی سے وفاقی کابینہ سے الگ ہونے والی جمعیت علماء اسلام اور متحدہ قومی موومنٹ کا خلا ء پر کرنے میں مدد ملے گی۔تیسرے مسلم لیگ ق، سندھ میں بھی متحدہ قومی موومنٹ کے متبادل کا روپ دھار سکتی ہے ۔

سیاسی مبصرین کی جانب سے مسلم لیگ ق کی قیادت کے حکومت میں شمولیت کے فیصلے کو دانشمندانہ قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اگر آئندہ انتخابات میں دونوں جماعتیں اپنا اتحاد قائم رکھتی ہیں تو مسلم لیگ ن کو نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔علاوہ ازیں دونوں جماعتیں ملکر پنجاب میں بھی اپنی حکومت قائم کر سکتی ہیں ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب اسمبلی میں بننے والے یونیفکیشن گروپ کے اراکین بھی مسلم لیگ ن سے اس وقت ناراض ہیں جن کا کہنا ہے کہ ن لیگ کی قیادت نے ان کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے لہذا اگر یونیفکیشن گروپ واپس مسلم لیگ ق کی طرف لوٹتا ہے تو پنجاب میں مسلم لیگ ن کا دھڑم تختہ آسان ہوجائے گا ۔

اس تمام تر صورتحال میں مسلم لیگ(ن) کی قیادت کی جانب سے کوئی واضح اور بھرپور حکمت عملی نظر نہیں آ رہی ہے ، اگر چہ تین ہفتے قبل مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو ڈاکٹرز نے ہوائی سفر کی اجازت دے دی تھی تاہم اس کے باوجود وہ لندن میں ہی قیام پذیر ہیں جبکہ مبصرین کا کہنا ہے کہ انہیں اس وقت ملک میں ہونا چاہیے تھا تاکہ حالات کا نزدیک سے اور بریک بینی سے جائزہ لے کر کوئی حکمت عملی ترتیب دے سکتے۔

دیکھا جائے تو گزشتہ تین سال میں عدلیہ بحالی تحریک کے علاوہ مسلم لیگ ن اتنی زیادہ متحرک نظر نہیں آئی بلکہ وہ ہمیشہ دو کشتیوں پر سوار رہی ۔ ایک جانب تو وہ جمہوریت کو کسی صورت پٹڑی سے اتارنے کا عزم دھراتی رہی تو دوسری طرف صدر آصف علی زرداری کو جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ بھی قرار دیتی رہی ۔

فرینڈلی اپوزیشن!!

موجودہ حکومت میں صرف ڈیڑھ مہینے کیلئے شمولیت اختیار کرنے والی مسلم لیگ ن کو اس کے بعد سے اب تک فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ برداشت کرنا پڑا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ن لیگ کے کلیدی رہنما خواجہ سعد رفیق اسے سنگین غلطی قرار دیا اور عزم ظاہر کیا کہ اب اصل اپوزیشن کا کردار ادا کیا جائے گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ساڑھے تین سال کی سیاسی غلطیوں کا ازالہ ڈیڑھ سال میں کیا جا سکتا ہے ؟

مسلم لیگ ن نے اٹھارویں ترمیم میں اپنے مضبوط گڑھ خیبر پختونخواہ کے ہزارہ ڈویژن کامقدمہ صحیح طریقے سے نہ پیش کرکے اپنا بھاری ووٹ بینک داؤ پر لگا دیا ہے جس کے سنگین نتائج اگلے انتخابات میں اس کے سامنے آ سکتے ہیں ۔

قومی اسمبلی کے حالیہ سیشن میں جس طرح ملک کی خفیہ ایجنسیوں پر مسلم لیگ ن کی قیادت کے بیانات سامنے آئے وہ بھی بے معنی نہیں ۔ وہ کسی صورت ملک کی سیاست میں ایجنسیوں کے کردار کو برداشت کرنے پر تیار نہیں ۔یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے بھی ایجنسیوں کے کہنے پر ہی ڈرون حملوں کے خلاف دھرنا دیا ۔ عمران خان کی صورت میں ایجنسیاں ایک نئی طاقت لانا چاہتی ہیں جو ملک میں جمہوریت کے لئے انتہائی خطرناک ہے تاہم دوسری جانب سے کہا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت خوفزدہ ہو رہی ہے جس کی مثال تحریک انصاف پر تنقید کرنا ہے کیونکہ ایک نئی اور چھوٹی جماعت کو اتنا سنجیدہ لینا اس کے شایا ن شان نہیں ہونا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG