رسائی کے لنکس

پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم کے تعلقات ایک مرتبہ پھر کشیدہ


رواں سال کے اوایل میں دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کے بعد وزیر اعظم گیلانی نے کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا تھا۔ (فائل فوٹو)
رواں سال کے اوایل میں دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات کے بعد وزیر اعظم گیلانی نے کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا تھا۔ (فائل فوٹو)

ایم کیو ایم وفاقی سطح کے علاوہ صوبہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی سربراہی میں قائم حکومت کا حصہ ہے لیکن مبصرین کی رائے میں دونوں جماعتوں کی طرف سے ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے کی جانے والی کوششیں ان کے درمیان مسلسل کشیدگی کی وجہ بنی ہوئی ہیں۔

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ان خدشات کو مسترد کیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور اس کی حلیف جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے درمیان اختلافات کی وجہ سے حکمران اتحاد کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔

اُنھوں نے یہ بیان ایک ایسے وقت دیا ہے جب صوبہ سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے اتوار کو دیے گئے ایک متنازع بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی سے علیحدگی کی دھمکی دی ہے۔

پیر کو اسلام آباد میں بین الاقوامی سیرت کانفرنس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی نے پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان کشیدگی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”میرا خیال ہے کہ وہ (ایم کیو ایم) ہمارے ساتھ رہیں گے۔“

وزیر اعظم کے بیان سے کچھ دیر پہلے کراچی میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما رضا ہارون نے صوبائی وزیر داخلہ کے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”ان حالا ت میں پی پی پی کے ساتھ نہیں چلا جا سکتا“ اور جماعت کے اس موقف سے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کو جلد باضابطہ طور پر آگاہ کر دیا جائے گا۔

وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے کراچی میں سرگرم پیپلز امن کمیٹی کو پی پی پی کی ذیلی تنظیم قرار دیا تھا جب کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بقول اس تنظیم میں شامل افراد صوبائی دارالحکومت میں بھتا وصولی اور اغوا برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں میں ملوث ہیں۔

رضا ہارون کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت جماعت سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمان اور رہنماؤں سے طویل مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اب اس فیصلے کا وقت آ گیا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے فروغ کے لیے ”ہاتھ دہشت گردوں سے ملنا ہو گا یا حقیقی، صحیح معنوں میں سیاسی جمہوری قوتوں کو آگے بڑھ کر ایک دوسرے کا ساتھ دینا ہوگا۔“

”اگر دہشت گردوں کی سرپرستی کی جائے گی اور دہشت گردوں کے ٹولوں کو ذیلی تنظیم کہا جائے گا، تو ایسے (حکمران) اتحاد میں ایم کیو ایم اپنا کوئی کردار نہیں دیکھتی۔“

اُدھر ایم کیو ایم کے انتباہ کے باوجود صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے کہا ہے کہ ایک روز قبل دیے گئے اُن کے بیان کو میڈیا نے غلط انداز میں پیش کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے کبھی جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی نہیں کی۔

ایم کیو ایم وفاقی سطح کے علاوہ صوبہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی سربراہی میں قائم حکومت کا حصہ ہے لیکن مبصرین کی رائے میں دونوں جماعتوں کی طرف سے ملک کے اس سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے کی جانے والی کوششیں ان کے درمیان مسلسل کشیدگی کی وجہ بنی ہوئی ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ایم کیو ایم حکمران اتحاد سے علیحدگی اختیار کرتی ہے کو پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت کو درپیش مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ ایم کیو ایم رواں سال کے آغاز میں بھی حکمران اتحاد سے الگ ہو گئی تھی لیکن چند روز کے اندر ہی اس نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا تھا۔

XS
SM
MD
LG