رسائی کے لنکس

ایم کیو ایم ، اے این پی میں قربت، پیپلزپارٹی کو سکھ کا سانس


ایم کیو ایم ، اے این پی میں قربت، پیپلزپارٹی کو سکھ کا سانس
ایم کیو ایم ، اے این پی میں قربت، پیپلزپارٹی کو سکھ کا سانس

بائیس روز قبل ملک میں ذوالفقار مرزا کے انکشافات عوامی حلقوں اور میڈیا میں سنسنی پیدا کرنے میں تو کامیاب رہے تاہم امیدوں کے برعکس اس سے سیاسی منظر نامے پر کوئی بڑی تبدیلی واقع نہ ہو سکی۔ اگرچہ کچھ سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر الزام تراشی سے سیاسی تناؤ ضرور پیدا ہوا مگر پیر کو اس کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن نے بھی حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کو گرین سگنل دے دیا۔ اس طرح ایک طویل انتظار کے بعد پیپلزپارٹی کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملا۔ عوامی حلقوں میں امید کی جا رہی ہے کہ اب بنیادی مسائل کی جانب بھی حکمرانوں کی توجہ مبذول ہو گی ۔

28 اگست کو ذوالفقار مرزا نے سر پر قرآن کریم اٹھا کر ایم کیو ایم اور وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک پر ایسے الزامات عائد کیے کہ ملک کے میڈیا اور عوامی حلقوں میں زبردست بحث چھڑگئی اور ایسا تاثر پیدا ہوا کہ شاید سیاسی منظر نامے پر کوئی تبدیلی دیکھنے میں آ ئے ۔ ایم کیو ایم کی جانب سے فاروق ستار اور مصطفی کمال کے ذریعے دو پریس کانفرنسوں میں الزامات کا جواب دیا گیا لیکن یہ بحث سمٹنے کے بجائے مزید طول پکڑ گئی اور یہی وجہ ہے کہ نو ستمبر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے خود پریس کانفرنس کر ڈالی تاہم اس کے بعد سیاسی آگ بجھنے کے بجائے مزید بھڑک اٹھی ۔

الطاف حسین : اے این پی پر لگائے گئے الزامات واپس

الطاف حسین نے ساڑھے تین گھنٹے کی طویل پریس کانفرنس میں اے این پی پر ملک توڑنے ، امریکی ڈالرز لینے اور عوام کو گمراہ کرنے جیسے الزامات لگائے جس کے بعد اے این پی کی قیادت نے بھی بھر پور زبانی حملے کیے اور یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ ایک دوسرے پر غداری اور دہشت گردی کے سنگین الزامات کے علاوہ پابندی کے مطالبات بھی کیے گئے ۔ دس روز تک یہ سلسلہ جاری رہا مگر پیر کو اچانک ہی الطاف حسین کا یہ بیان سامنے آیا کہ وہ اپنی پریس کانفرنس کے دوران اے این پی سے متعلق الزامات واپس لیتے ہیں ، امریکا سے ڈالرز لینے کے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ،اور انہیں اے این پی رہنماؤں اور کارکنان کی دل آزاری پر افسوس ہے ۔

الطاف حسین نے مزید کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تلخیاں ختم ہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک کو امن و یکجہتی کی جتنی ضرورت ہے اوراس کا احساس وہی لوگ کر سکتے ہیں جو پاکستان کی بقاء و سلامتی کے لئے قربانیاں دے رہے ہیں ۔

اس کے جواب میں اے این پی کے سربراہ اسفند یار ولی نے بھی الطاف حسین کی جانب سے الزامات واپس لینے کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان محاز آرائی میں کمی وقت کی ضرورت ہے ، محازآرائی کی سیاست ترک کرنے سے کراچی میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہو گی اور جمہوریت مستحکم ہو گی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ملک کو اندرونی و بیرونی چیلنجز درپیش ہیں جن سے نمٹنے کیلئے سیاسی جماعتوں میں مفاہمت کا فروغ انتہائی اہم ہے ۔ اسفند یار ولی کا کہنا تھا کہ جمہوری سوچ رکھنے والے ایک دوسرے کا میڈیا ٹرائل نہیں کریں گے ۔

میاں نواز شریف کا حکومت کو گرین سگنل

دوسری جانب قومی اسمبلی میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے بھی حکومت کو گرین سگنل دے دیا ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران اگر چہ انہوں نے پیپلزپارٹی کی پالیسیوں پر ہمیشہ کی طرح کڑی تنقید کی تاہم ایک صحافی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ جمہوری حکومت کو انتخابات کے ذریعے آنا چاہیے اورانتخابات کے ذریعے ہی جانا چاہیے ، نئے انتخابات کا فیصلہ صدر و وزیراعظم کو کرنا ہے کہ کب کرائے جائیں ۔

اس موقع پر اگر چہ نواز شریف مستقبل میں بہتری کیلئے ناامید نظر آ ئے لیکن ان کا کہنا تھا کہ حکومت میں شامل سیاسی رہنما صلح کررہے ہیں جو اچھی بات ہے تاہم مجرموں کو رعایت نہیں ملنی چاہیے ۔ اس موقع پر انہوں نے کراچی میں فوج نہ بلانے کے حکومتی فیصلے کی ایک بار پھر تائید کرتے ہوئے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد کیا جائے تو شہر میں فوج بلانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی ۔

ایم کیو ایم اور اے این پی میں پھر قربت

مبصرین کے مطابق ایم کیو ایم اور اے این پی کی ایک مرتبہ پھر قربت پیپلزپارٹی کی مفاہمتی پالیسی کا نتیجہ ہے جس میں وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کا کردار انتہائی اہم ہے ،جنہوں نے گزشتہ دنوں دونوں جماعتوں کی قیادت کواس بات پر قائل کیا کہ یہ وقت متحد ہونے کا ہے ۔دوسری جانب اس تمام تر تناظر میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا بیان بھی حکومت کیلئے حوصلہ افزاء ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جمہوری حکومت کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ ڈالنے کے موڈ میں نہیں ۔

پیر کو ایم کیو ایم ،اے این پی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت کی جانب سے آنے والے بیانات سے یقینی طور پر پیپلزپارٹی کی قیادت نے ایک طویل عرصے بعد سکھ کا سانس لیا ہو گا اور اب امید کی جا رہی ہے کہ حکمرانوں کی توجہ اب سیاسی لڑائی کے بجائے ملک میں آنے والی حالیہ قدرتی آفات سے نمٹنے اور عوامی مسائل کے حل کرنے پر ہو گی ۔

XS
SM
MD
LG