توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کا بارہ روز بعد تفصیلی فیصلہ آ گیا۔آگے کیا ہو گا؟ اس صورتحال نے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ دونوں کو ہی امتحان میں ڈال دیا۔ ادھر،حکمراں جماعت پیپلزپارٹی اور اپوزیشن ن لیگ نے پنجاب میں دما دم مست قلندر کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔
فیصلہ منگل کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دورہ برطانیہ پر روانگی کے چند گھنٹوں بعد آیا ۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کا اگلا قدم اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل کرنا ہو گا اور اس کا ان کے وکیل اعتزاز احسن اوروزیراعظم خود بار بار اظہاربھی کر چکے ہیں، لیکن وزیراعظم کے اس اقدام کا سامنا سپریم کورٹ کیلئے بھی ایک امتحان بن گیا ہے۔
سپریم کورٹ کو مشکلات
سپریم کورٹ میں ججز کی مجموعی تعداد سولہ ہے۔سات رکنی بینچ نے وزیراعظم کے خلا ف توہین عدالت کیس کی سماعت کی لہذا وہ وزیراعظم کی اپیل کی سماعت نہیں کر سکتے۔ جس کا مطلب ہے کہ اس کے بعد نو ججز اپیل کی سماعت کیلئے باقی بچے تھے۔لیکن جسٹس تصدق جیلانی اور جسٹس شاکر اللہ جان سمیت تین ججوں نے اپیل کی سماعت سے معذرت کر لی جس کے بعد سماعت کیلئے صرف چھ ججز دستیاب ہیں۔
گزشتہ دنوں بلوچستان میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وزیراعظم اپیل کرتے ہیں تو اس کیلئے نو ججزدرکار ہوں گے ، ہمارے پاس چھ جج ہیں لہذا اس کمی کو پورا کرنے کیلئے دو ایڈہاک اور ایک ایڈیشنل جج لایا جائے گا۔ لیکن اس معاملے پر وکلاء اور حکومت کی جانب سے سخت رد عمل سامنے آیا اور یہی وجہ ہے کہ پیر کو اس حوالے سے ہونے والا جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بغیر نتیجے پر پہنچے ہی ختم ہو گیا۔
پارلیمنٹ کے مسائل
بہرحال اگر یہ معاملہ حل ہو جاتا ہے ، سپریم کورٹ وزیراعظم کی اپیل مسترد کر دیتی ہے تو پھر اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس ریفرنس جائے گا اور وہ فیصلہ کریں گی کہ اسے الیکشن کمشنر کے پاس بھیجا جائے یا نہیں۔اگر وہ الیکشن کمشنر کے پاس ریفرنس بھیج بھی دیتی ہیں توملک میں جسٹس شاکر اللہ جان کی صورت میں قائم مقام الیکشن کمشنر ہیں اور ان کا کوئی بھی فیصلہ متنازع بن سکتا ہے۔ دوسری جانب نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اپوزیشن لیڈر چوہدری نثار کے رویے کے باعث کھٹائی میں پڑی ہے۔
آئین کے مطابق الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت لازمی ہے۔ لیکن اپوزیشن لیڈر کا موقف ہے کہ وزیر اعظم نا اہل ہو چکے ہیں لہذا ان سے کوئی مشاورت ہی نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ حکومت اور اپوزیشن کی کشیدگی کے باعث بیسویں ترمیم پر عملدرآمد بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے، کیونکہ اس کے مطابق نگراں حکومت کے قیام میں بھی وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر میں مشاورت ضروری ہے۔
پنجاب میں دما دم مست
پاکستان میں مجموعی آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ رکھنے والا صوبہ پنجاب اس وقت سب کی توجہ کا مرکز ہے جہاں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے اور یہاں سے پیپلز پارٹی کے خلاف سب سے زیادہ آواز بلند ہورہی ہے۔ مسلم لیگ ن نے تو پہلے ہی پنجاب کے مختلف شہروں میں وزیراعظم کے خلاف احتجاج کے شیڈول کا اعلان کر رکھا تھااس کے جواب میں پیپلزپارٹی بھی منگل کو میدان میں آ گئی اوروزیراعظم سے اظہار یکجہتی کیلئے صوبہ میں ریلیوں اور جلسوں کا اعلان کردیا۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر امتیاز صفدر وڑائچ نے اعلان کیا کہ دس مئی کو پیپلز لائرز فورم کے زیر اہتمام لاہور میں سیمینار ہوگا۔ بارہ مئی کولاہور میں ریلی نکالی جائے گی۔ چودہ مئی کو اوکاڑہ میں جلسہ ہوگا۔ سولہ مئی کو راولپنڈی میں جلسہ کیا جائے گا۔ اٹھارہ مئی کو فیصل آباد میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا کنونشن ہوگا۔ انیس مئی کو لاہور سے قصور تک ریلی نکالی جائے گی۔ اکیس مئی کو لاہور سے ننکانہ ریلی اور جلسہ منعقد کیا جائے گا۔ بائیس مئی کو ساہیوال میں جلسہ کیا جائے گا۔ تئیس مئی کو لاہور سے گوجرانوالہ تک ریلی نکالی جائے گی۔ مئی کے آخری ہفتے میں سرگودھا، خوشاب، سیالکوٹ اور منڈی بہا وٴ الدین میں ریلیاں اور جلسے ہوں گے۔
ادھر وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے لندن پہنچنے سے قبل طیارے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں کوئی ڈرا دھمکا کر استعفیٰ نہیں لے سکتا۔ ن لیگ خاص وجہ سے الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں چاہتی۔ انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ سرائیکی صوبے کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی تو ملک بھر میں احتجاج شروع ہو جائے گا۔
ن لیگ کا نہلے پہ دہلا
دوسری جانب ن لیگ نے نہلے پر دہلا پھینکتے ہوئے پنجاب کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں پیش کر دی۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے پنجاب میں جنوبی پنجاب اور بہاولپور صوبے بنانے کی قرارداد یں جمع کرا دی ہیں۔
مبصرین موجودہ صورتحال میں ملکی سیاسی صورتحال سے متعلق کوئی بھی پیش گوئی کرنے سے گریزاں ہیں تاہم اس تمام تر صورتحال کو جمہوریت کیلئے بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1