رسائی کے لنکس

گھیراؤ کر کے حکومت کو گھر بھیجنے کے روایت نہیں پڑنے دیں: وزیراعظم


Ofishin Jakadancin Nijar A Washington, DC
Ofishin Jakadancin Nijar A Washington, DC

وزیراعظم نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب حکومت دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان انتہا پسندی سے نکل کر مہذب جمہوری ریاست بن رہا ہے پارلیمان کے سامنے دھرنوں سے ملک کی ساکھ متاثر ہوئی۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ کا گھیراؤ کر کے حکومت کو گھر بھیجنے کی روایت نہیں پڑنے دیں گے۔

پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے اختتام پر جمعہ کو اُن کا کہنا تھا کہ بڑی قربانیوں کے بعد پاکستان جمہوریت کی حکمرانی کی منزل تک پہنچا ہے اور ’’کسی کو جمہوریت پر کلہاڑا نہیں چلانے دیں گے۔‘‘

’’آج پھر کہہ رہا ہوں کہ وطنِ عزیز کو ایسا جنگل نہیں بننے دیں گے جہاں ’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘ کا قانون چلے۔ آئین ، قانون، نظام عدل و انصاف اور مضبوط ادارے رکھنے والی کوئی ریاست اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مٹھی بھر افراد پارلیمنٹ کا گھیراﺅ کر کے حکومت اور وزیر اعظم کو گھر بھیجیں۔ ہم یہ روایت نہیں پڑنے دیں گے۔‘‘

اُنھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ دھرنوں کے باوجود حکومت اپنا کام جاری رکھے گی۔

’’ کوئی کھیل تماشہ، کوئی فتنہ و فساد ، کوئی ہنگامہ آرائی، کوئی لانگ مارچ یا کوئی شارٹ مارچ ہمیں اپنے مشن سے نہیں ہٹا سکتا۔ اگر کسی کے دل میں کوئی شک ہے تو دور کر لے۔ اللہ کے فضل و کرم اور پاکستانی قوم کے بھرپور اعتماد کے ساتھ ہم خدمت کا یہ سفر جاری رکھیں گے۔‘‘

پاکستان میں جاری سیاسی کشیدگی کے حل کے لیے ستمبر کے اوائل سے جاری پارلیمان کا مشترکہ اجلاس جمعہ کو ختم ہو گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایک ایسے وقت جب حکومت دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہے کہ پاکستان انتہا پسندی سے نکل کر مہذب جمہوری ریاست بن رہا ہے پارلیمان کے سامنے دھرنوں سے ملک کی ساکھ متاثر ہوئی۔

’’ہم سب گزشتہ پانچ ہفتوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر کیا کچھ ہو رہا ہے؟ کس طرح کی اشتعال انگیز تقریریں کی جا رہی ہیں۔ لوگوں کو مشتعل کر کے بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے۔ شیر خوار بچوں کو کفن پہنا کرجذبات بھڑکائے جا رہے ہیں۔ خوبصورت سبزہ زاروں پر قبریں کھودی جا رہی ہیں۔‘‘

اُن کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کے کئی قائدین کو ضمانت دینے اور انتظامیہ سے تحریری عہد کے باجود مظاہرین اسلام آؓباد کے ریڈ زون میں داخل ہوئے۔

’’قومی نشریاتی ادارے کا گلا گھونٹ کر انھوں نے اہل پاکستان اور پوری دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان لاقانونیت کے نرغے میں ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ تشدد اور لاقانونیت کا یہ کھیل، آزادی اور انقلاب کے نام پر کھیلا جاتا رہا۔‘‘

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ حکومت نے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں۔

’’حکومت نے کھلے دل سے دونوں پارٹیوں کے بیشتر مطالبات مان لیے۔ ہائی کورٹ میں اِنٹرا کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلوں کا استحقاق رکھتے ہوئے بھی عوامی تحریک کی درخواست کے عین مطابق ایف آئی آر درج کرلی گئی میں نے شہباز شریف اور اپنا نام بھی اُس ایف آئی آر میں آنے دیا۔ لیکن دوسری طرف سے لچک کا کوئی مظاہرہ نہ ہوا۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ حکومت کو مکمل یقین ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں منصوبہ بندی کے ساتھ کوئی منظم دھاندلی نہیں ہوئی۔ پاکستان اور دنیا بھر کے دوسو کے لگ بھگ مبصرین کی متفقہ رائے ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے منصفانہ اور شفاف انتخابات تھے جن کے نتائج دنیا کے معتبر ترین انتخابی جائزوں کے عین مطابق تھے۔

’’انھوں نے کسی بھی ادارے کو معاف نہیں کیا۔ لاتعداد شخصیات پر الزامات لگائے۔ لیکن پوری قوم گواہ ہے کہ منظم دھاندلی کا کوئی ایک ،کوئی ایک، ثبوت سامنے نہیں لایا جا سکا۔‘‘

حالیہ دھرنوں کے باعث ہونے والے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی رفتار میں کمی آئی ہے جب کہ اُن کے بقول روپے کی قدر کی کمی اور سٹاک مارکیٹ میں بے یقینی کے سبب ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 600ارب روپے لگایا جا رہا ہے۔

’’بیرونِ ملک سے آنے والے سربراہانِ مملکت اپنے دورے منسوخ کررہے ہیں۔ ہمارے دیر ینہ دوست چین کے صدر کے دورے کے التوا سے پوری قوم کو دُکھ پہنچا ہے۔ مسئلہ صرف 35 ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کا نہیں، اُس گہرے رشتے کا ہے جو چین اور پاکستان کے درمیان قائم ہے۔ کس قد ر افسوس کا مقام ہے کہ چینی صدر اِس خطے کے دورے پر ہوں اور پاکستانی قوم ان کی میزبانی سے محروم رہے۔‘‘

وزیراعظم نے احتجاج کرنے والی جماعتوں سے کہا کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کریں۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بھی کہا کہ وہ چاہتے ہیں پارلیمنٹ کے باہر مظاہرہ کرنے والی جماعتوں سے بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔

پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دینے والی جماعتوں عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے قائدین وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مطالبات منوائے بغیر اسلام آباد سے واپس نہیں جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG