کیا جمعرات کو سید یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا جا جائے گا؟ہاں یا نہیں ؟ بحث عروج پر پہنچ چکی ہے۔ حکمراں اتحاد، اپوزیشن، عدلیہ ، انتظامیہ سمیت تمام اداروں کا امتحان۔مبصرین دونوں صورتوں کے مستقبل میں انتہائی اہم اثرات دیکھ رہے ہیں۔
16دسمبر 2009ء کو سپریم کورٹ نے این آر او سے متعلق اپنے فیصلے میں صدر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کے سلسلے میں وفاقی حکومت کو ہدایات جاری کیں کہ وہ سوئس حکام کو خط لکھے۔تاہم، حکومت کا موقف ہے کہ صدر کو آئین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے اس لیے ان کے خلاف اندرون ِملک یا بیرون ِملک مقدمات کھولے یا درج نہیں کیے جا سکتے۔
وزیراعظم این آر او عملدرآمد کیس میں پہلی مرتبہ19 جنوری کو وزرا، اتحادی جماعتوں کے رہنماوٴں سمیت 45 حکومتی شخصیات کے ہمراہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا کہ سوئس حکام کو خط صدر زرداری کو آئینی استثنیٰ حاصل ہونے کی بنا پر نہیں لکھا۔
وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے کوشش کی کہ وہ عدالت کو قائل کر سکیں کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے ، خط لکھ کر انہیں کسی غیر ملکی مجسٹریٹ کے سامنے نہیں پیش کیا جا سکتا۔ وہ سماعت کرنے والے بنچ پر بھی اعتراض کرتے رہے اور کہتے رہے کہ ان کے موکل پر جس بینچ نے فرد جرم عائد کی وہ آرٹیکل دس اے کے تحت سماعت نہیں کر سکتا۔
اعتزاز احسن عدالت کو دلائل کے ذریعے قائل کرنے میں کتنا کامیاب ہو ئے ؟سزا کی صورت میں کیا وزیراعظم اپنا عہدہ برقرار رکھ سکیں گے ؟اگر نہیں تو اگلا وزیراعظم کون ہو گا ؟ اگر سزا نہ ہوئی تو قانون کی بالادستی پر سوالات اٹھیں گے ؟عدالت سے صدر کو حاصل استثنیٰ سے متعلق بھی رجوع کیا جا سکتا ہے؟ یہ تمام سوالات ایسے ہیں جن پر نہ صرف قانونی ماہرین کے درمیان ہی نہیں بلکہ عام شہریوں میں بھی بحث عروج پر ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں حکومتی اتحاد میں شامل اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور نے دلچسپ بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو سزا ہویا نہ ہو۔ ان کے دونوں ہاتھوں میں لڈو ہیں جسکا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر سزا نہیں ہوتی تو پھر وہ وزیراعظم کے منصب پر فائز رہیں گے اور اگر سزا ہوتی ہے تو بھی پیپلزپارٹی آئندہ انتخابات میں مظلوم بن کر فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی سپریم کورٹ میں صدر کو حاصل استثنیٰ سے متعلق رجوع کر کے آسانی سے اس معاملے کو حل کر سکتی تھی پھر کیا وجہ ہے کہ اس نے حریفوں میں پائے گئے اس تاثر کوتقویت دی کہ وزیراعظم سیاسی شہادت چاہتے ہیں۔ یہاں چار مارچ کو گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر صدر زرداری کے ان الفاظ کو بھی یاد کرنا ضروری ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ”سپریم کورٹ نے نوڈیرو میں رینٹل پاور پلانٹ تو ہٹا دیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کیس کا فیصلہ نہیں کیا“ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ”وزیراعظم گیلانی کو تخت لاہور کو جنوبی پنجاب سے الگ کرنے کی بات پر سزا دی جا رہی ہے ، میرے پاس ہر حملے کا توڑ ہے “۔
وزیراعظم بھی گزشتہ کئی روز سے ہر جگہ پارٹی سے وفاداری کے عہدو پیما میں مصروف ہیں۔اس تمام تر صورتحال کا مطلب ہے کہ پیپلزپارٹی تمام تر صورتحال کیلئے تیار ہے البتہ فیصلے کے بعدکی صورتحال میں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں کیا موقف اختیار کرتی ہیں ، یہ ان کا امتحان ہے۔
وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو ملک میں پہلی مرتبہ عسکری قیادت کے ہاتھوں نہیں بلکہ عدلیہ کے ہاتھوں وزیراعظم ہٹے گا ، اس پر کیا رد عمل ہو گا ، یہ عدلیہ کا امتحان ہے۔ اگر وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو اس پر عملدرآمد کرانا انتظامیہ کا امتحان ہے۔ وزیراعظم کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو یہ اپوزیشن کا امتحان ہے کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کرتی ہے۔