نواز انتظامیہ اور احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ڈیڈلاک بدستور قائم ہے اور دونوں فریقین بات چیت میں لچک کا مظاہرہ کرنے کے دعوے کرتے آئے ہیں۔
نواز انتظامیہ کی 15 ماہ کی حکومت کے اس بدترین سیاسی بحران کو دیکھتے ہوئے جہاں دوسری حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے معاملات طے کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں وہیں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قانون ساز نے وزیراعظم کو ایک بااختیار نائب وزیراعظم مقرر کرنے کی تجویز دی ہے۔
سینیٹر چوہدری جعفر اقبال نے وزیراعظم نواز شریف کو ایک خط لکھ کر کہا ہے کہ جمہوریت و پارلیمان کی بقا اور موجودہ سیاسی بحران کے لیے ایک واحد آئینی راستہ ہے کہ احتجاج کرنے والی جماعتوں کے ساتھ مشاورت سے ایک نائب وزیراعظم کا عہدہ بنایا جائے جو کہ انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کی مجوزہ عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات اور انتخابی اصلاحات سے متعلق امور کی نگرانی کریں۔
’’رولز میں تبدیلی کریں جیسے پچھلی حکومت میں چوہدری پرویز الہیٰ کو نائب وزیراعظم بنایا گیا اور وزارت قانون و پارلیمان وزیراعظم اپنے نائب کے حوالے کریں اور باقی معاملات خود دیکھیں۔‘‘
چوہدری جعفر اقبال کا کہنا تھا کہ اس کے لیے صدر مملکت کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں جو کہ سیاسی جماعتوں کا اس بارے میں اجلاس طلب کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطالبے کے لیے آئینی شقوں کے تحت حکومت پارلیمان سے اجازت لیتے ہوئے ملک میں ریفرنڈم کروا سکتی ہے کہ آیا پاکستانی عوام کو موجودہ پارلیمانی نظام قبول ہے یا نہیں۔
قومی اسمبلی کو اب تک ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات بتاتے ہوئے وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ حکومت بات چیت سے سیاسی بحران حل کرنا چاہتی ہے اور مظاہرے کرنے والے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے قائدین کو الٹی میٹم دینے سے اجتناب کرنا چاہئے۔
’’ایک ضد ہے کہ میں نے کہہ دیا ہے کہ استعفیٰ دے دیں۔ چاہے 30 دن کے لیے دے دیں اور وزیراعظم کے آفس کو او ایس ڈی کا درجہ دے دیں۔ کیا ملک ایسے چلتا ہے۔ جوہری ریاست ایسے چلتی ہے؟"
پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان کی طرف سے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسمبلیوں کی تحلیل اور حکومت کے خاتمے کے مطالبات واپس لے لیے گئے اور اب بال حکومت کے کورٹ میں ہے کہ وہ جمہوری نظام اور آئین کی بالادستی کے لیے کیا فیصلہ کرتی ہے۔
’’حکومت بھی ان کی، اسمبلی، پارٹی اور نمائندہ بھی ان کا۔ فرد واحد وقتی طور پر قوم کے لیے قربانی نہیں دے سکتا؟ یہ کوئی بڑی قیمت ہے؟اگر ہڈ دھرمی پر قائم رہتے ہیں تو نقصانات تو دیکھیں۔‘‘
سینٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو مظاہرے کرنے والی سیاسی جماعتوں کی طرف سے مطالبات کی منظوری کے لیے صرف اختیار کردہ طریقہ کار سے اختلاف ہے۔
’’اجتماع پرامن اور سلیقے دار ہے۔ اگر روایت پڑ جائے تو کل کلاں مسلح لشکر بھی آ سکتا ہے اپنی بات منوانے کے لیے۔ ان کے مطالبات جائز ہیں۔"
ادھر نواز انتظامیہ اور تحریک انصاف کے مذاکرات کاروں کے درمیان بدھ کو ہونے والی نشست میں بھی کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی اور ڈیڈ لاک کی وجہ وزیراعظم نواز شریف کا استعفیٰ بتائی جارہی ہے۔