پاکستان کے سیاسی نظام میں وزیر اعظم کا منصب وہی حیثیت رکھتا ہے جو نظام شمسی میں چاند کی حیثیت ہوتی ہے اور جب سے آئین میں بیسویں ترمیم ہوئی ہے وزیر اعظم کامنصب اور بھی زیادہ دلکشی کا باعث ہوگیا ہے۔
نئے انتخابات کے دن قریب ہیں، اِس لئے کچھ پارٹیاں جلد ازجلد انتخابات کرانے کا مطالبہ کررہی ہیں تو کچھ نے انتخابات سے پہلے نگراں سیٹ اپ میں شامل ہونے کے لئے کوششیں تیز کردی ہیں۔ ہر فرد کو ابھی سے انتظار ہوگیا ہے کہ اگلا نگراں وزیراعظم کون ہوگا َ؟۔۔اقتدار کی ہما کس کے سر بیٹھے گی۔
اس صف میں سب سے آگے پاکستان کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ نو ن ہے۔ چونکہ اس بار بیسویں ترمیم کے تحت نگراں سیٹ اپ اور نگراں وزیراعظم کے لئے نام پیش کرنے کی ’بھاری ذمے داری‘ قائد ایوان یعنی وزیراعظم (راجہ پرویز اشرف )اورحزب اختلاف کے رہنما یا لیڈر آف دی اپوزیشن (چوہدری نثار علی خان )کے کندھوں پر ہوگی۔ لہذا، سب سے پہلے چوہدری نثار علی خان نے ہی یہ اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت نے نگراں وزیراعظم کے لئے 9نولوگوں کو شارٹ لسٹ کرلیا ہے۔
نگراں وزیراعظم کے نام
چوہدری نثارعلی خان نے تو یہ تمام کے تمام نام صیغہ راز میں رکھے ہیں ،لیکن دارالحکومت میں موجود معتبر سیاسی ذرائع کے حوالے سے روزنامہ جنگ نے انکشاف کیا ہے کہ ان ناموں میں مندرجہ ذیل چار نام بھی شامل ہیں: 1۔ قاضی حسین احمد 2۔ محمود خان اچکزئی 3۔ عاصمہ جہانگیر اور 4۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد۔
نگراں حکومت کی تشکیل کے حوالے سے چوہدری نثار علی خان نے فوری طور پر ناصرف دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے بڑھا دیئے ہیں، بلکہ اہم سیاسی رہنماوٴں سے مشاورت بھی شروع کر دی ہے ۔ چوہدری نثار نےاپنی سیاسی قیادت سے مشاورت اور دیگر جماعتوں کے ساتھ صلاح مشورے میں2 ناموں پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ آئین کے تحت اپوزیشن لیڈر کونگراں وزیراعظم کے لئے دو نام وزیراعظم کو بھیجناہوں گے۔
آئین میں رواں سال کی گئی بیسویں ترمیم کے تحت قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے تین روز کے اندراندر نگران وزیراعظم کی تقرری عمل میں لائی جائے گی۔عدم اتفاق کی صورت میں حکومتی اور حزب اختلاف کے چار، چار اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو متفقہ ناموں کی سفارش کرے گی۔بالفرض محال اگر یہ کمیٹی بھی نگراں وزیرکے نام پیش کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو الیکشن کمیشن حتمی فیصلہ کرکے مجوزہ نام صدر کو بھیجے گا۔
نگراں سیٹ اپ میں رہنماوٴں کا کردار
نگراں سیٹ اپ میں کون کون سی شخصیات کا کردار اہم ہوگا ، ملک میں اس بارے میں بھی اچھی خاصی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ چونکہ پیپلز پارٹی برسراقتدارہے اور مسلم لیگ ن اپوزیشن میں ہے لہذا نگراں حکومت کی تشکیل میں سب بڑا اور اہم اور مرکزی کردار تو انہی دونوں جماعتوں اور ان کے دواہم رہنماوٴں راجہ پرویز اشرف اور چوہدری نثار کا ہوگاتاہم صوبائی سطح پرہر صوبے کا وزیراعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کا اپوزیشن لیڈر اہم کردار اداکرے گا۔مثلاً پنجاب میں ملک کی دونوں بڑی جماعتیں مرکز کے مقابلے میں یکسر مختلف پوزیشن رکھتی ہیں۔ یہاں پی پی اپوزیشن اور ن لیگ اقتدار میں ہے لہذا پنجاب میں نگراں حکومت کی تشکیل میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اہم کردار اداکریں گے۔
سندھ میں پی پی، متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ فنکشنل کا کردار اہم ہوگا ۔ متذکرہ پہلی دونوں جماعتیں اقتدار میں ہیں جبکہ فنکشنل اپوزیشن تصور ہوگی۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے ۔
بلوچستان میں چونکہ اپوزیشن ایک رکنی ہے۔ لہذا ،یارمحمد رند کے بارے میں کہاجارہا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کا ساتھ دیں گے جبکہ باقی ممبر تو ہیں ہی حکومت کے ساتھ۔ یارمحمد رند سابق وزیر خوراک اور مسلم لیگ ق کے رکن رہ چکے ہیں۔
نئے انتخابات کے دن قریب ہیں، اِس لئے کچھ پارٹیاں جلد ازجلد انتخابات کرانے کا مطالبہ کررہی ہیں تو کچھ نے انتخابات سے پہلے نگراں سیٹ اپ میں شامل ہونے کے لئے کوششیں تیز کردی ہیں۔ ہر فرد کو ابھی سے انتظار ہوگیا ہے کہ اگلا نگراں وزیراعظم کون ہوگا َ؟۔۔اقتدار کی ہما کس کے سر بیٹھے گی۔
اس صف میں سب سے آگے پاکستان کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ نو ن ہے۔ چونکہ اس بار بیسویں ترمیم کے تحت نگراں سیٹ اپ اور نگراں وزیراعظم کے لئے نام پیش کرنے کی ’بھاری ذمے داری‘ قائد ایوان یعنی وزیراعظم (راجہ پرویز اشرف )اورحزب اختلاف کے رہنما یا لیڈر آف دی اپوزیشن (چوہدری نثار علی خان )کے کندھوں پر ہوگی۔ لہذا، سب سے پہلے چوہدری نثار علی خان نے ہی یہ اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت نے نگراں وزیراعظم کے لئے 9نولوگوں کو شارٹ لسٹ کرلیا ہے۔
نگراں وزیراعظم کے نام
چوہدری نثارعلی خان نے تو یہ تمام کے تمام نام صیغہ راز میں رکھے ہیں ،لیکن دارالحکومت میں موجود معتبر سیاسی ذرائع کے حوالے سے روزنامہ جنگ نے انکشاف کیا ہے کہ ان ناموں میں مندرجہ ذیل چار نام بھی شامل ہیں: 1۔ قاضی حسین احمد 2۔ محمود خان اچکزئی 3۔ عاصمہ جہانگیر اور 4۔ جسٹس (ر) ناصر اسلم زاہد۔
نگراں حکومت کی تشکیل کے حوالے سے چوہدری نثار علی خان نے فوری طور پر ناصرف دیگر سیاسی جماعتوں سے رابطے بڑھا دیئے ہیں، بلکہ اہم سیاسی رہنماوٴں سے مشاورت بھی شروع کر دی ہے ۔ چوہدری نثار نےاپنی سیاسی قیادت سے مشاورت اور دیگر جماعتوں کے ساتھ صلاح مشورے میں2 ناموں پر اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔ آئین کے تحت اپوزیشن لیڈر کونگراں وزیراعظم کے لئے دو نام وزیراعظم کو بھیجناہوں گے۔
آئین میں رواں سال کی گئی بیسویں ترمیم کے تحت قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے تین روز کے اندراندر نگران وزیراعظم کی تقرری عمل میں لائی جائے گی۔عدم اتفاق کی صورت میں حکومتی اور حزب اختلاف کے چار، چار اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو متفقہ ناموں کی سفارش کرے گی۔بالفرض محال اگر یہ کمیٹی بھی نگراں وزیرکے نام پیش کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو الیکشن کمیشن حتمی فیصلہ کرکے مجوزہ نام صدر کو بھیجے گا۔
نگراں سیٹ اپ میں رہنماوٴں کا کردار
نگراں سیٹ اپ میں کون کون سی شخصیات کا کردار اہم ہوگا ، ملک میں اس بارے میں بھی اچھی خاصی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ چونکہ پیپلز پارٹی برسراقتدارہے اور مسلم لیگ ن اپوزیشن میں ہے لہذا نگراں حکومت کی تشکیل میں سب بڑا اور اہم اور مرکزی کردار تو انہی دونوں جماعتوں اور ان کے دواہم رہنماوٴں راجہ پرویز اشرف اور چوہدری نثار کا ہوگاتاہم صوبائی سطح پرہر صوبے کا وزیراعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کا اپوزیشن لیڈر اہم کردار اداکرے گا۔مثلاً پنجاب میں ملک کی دونوں بڑی جماعتیں مرکز کے مقابلے میں یکسر مختلف پوزیشن رکھتی ہیں۔ یہاں پی پی اپوزیشن اور ن لیگ اقتدار میں ہے لہذا پنجاب میں نگراں حکومت کی تشکیل میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اہم کردار اداکریں گے۔
سندھ میں پی پی، متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ فنکشنل کا کردار اہم ہوگا ۔ متذکرہ پہلی دونوں جماعتیں اقتدار میں ہیں جبکہ فنکشنل اپوزیشن تصور ہوگی۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے ۔
بلوچستان میں چونکہ اپوزیشن ایک رکنی ہے۔ لہذا ،یارمحمد رند کے بارے میں کہاجارہا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کا ساتھ دیں گے جبکہ باقی ممبر تو ہیں ہی حکومت کے ساتھ۔ یارمحمد رند سابق وزیر خوراک اور مسلم لیگ ق کے رکن رہ چکے ہیں۔