ہاتھ ہلاتی، اپنی جماعت کے نعرے لگاتی اور انگلیوں سے فتح کے نشان بناتی، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ بھٹو ذرادری،اپنی والدہ ہی کی تصویر نظر آ رہی تھیں۔
سیاسی مبصریںن اور عوامی رائے قاعم کرنے والی شخصیات نے اس بات کا اظہار اس وقت کیا جب پیر کے روز ملتان میں اپوزیشن کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے آصفہ نے باضابطہ اور باقاعدہ طور پر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔
بھٹو خاندان کی تین نسلوں کی سیاست پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اُن کی رائے میں آصفہ کی تقریر کا مواد اتنا اہم نہیں تھا جتنی ان کی وہاں موجودگی اور ان کا ہالہ تھا، جو ان کی والدہ کی انرجی اور احساس پیدا کر رہا تھا۔
27 سالہ آصفہ کا باضابطہ طور پر سیاست میں داخل ہونا بالکل اچانک ہے۔ وہ اپنے بھائی کی جگہ حزب اختلاف کے پہلے سے طے شدہ جلسے سے خطاب کرنے آئی تھیں۔ بلاول، کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد قرنطینہ میں تھے اور خطاب کرنے کے لیے جلسہ گاہ میں نہیں آ سکتے تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما اور بے نبظیر بھٹو کی قریبی سیاسی رفیق، شیری رحمان کہتی ہیں کہ آصفہ کی اچانک موجودگی، کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ حالات نے ہمیشہ بھٹو خاندان کے اہم افراد کو ملکی سیاست کے خارز ار میں دھکیل دیا۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر اور بلاول نے سیاسی زندگی کو نہیں بلکہ خود سیاست نے اِنہیں منتخب کیا۔
بختاور اور آصفہ زیادہ تر سیاست کے پس پردہ رہیں اور اپنے آپ کو سوشل میڈیا پر سیاسی کمنٹری تک محدود رکھا۔
آصفہ بھٹو نے یونیورسٹی کالج لندن سے گلوبل ہیلتھ میں ایم اے کیا ہوا ہے، اور اپنے آپ کو صحت کے ایک سرگرم کارکن کے طور پر منوایا ہے۔ وہ انسدادِ پولیو کیلئے اقوام متحدہ کی سفیر ہیں۔
معروف صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ آصفہ میں بظاہر سیاسی خوبیاں بچپن سے تھیں۔
سہیل وڑائچ نے محترمہ بے نظیر بھٹو سے اپنی ملاقاتوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ایک دفعہ محترمہ نے بتایا تھا کہ آصفہ کو جب بھی سکول تبدیل کرنا ہوتا تھا تو وہ پلے کارڈوں پر نعرے لکھ کر گھر میں لگا دیتی تھیں۔
پاکستان کی حکمران جماعت، پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے آصفہ کی سیاست میں شمولیت کو پاکستان پیپلز پارٹی میں موروثی سیاست کا تسلسل قرار دیا ہے۔