پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ حکومت مخالف تحریک کے اعلان کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) انہیں ہراساں کر ریا ہے تاہم وہ حکومتی دباؤ کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر نیب نے انہیں بے بنیاد الزامات میں گرفتار کر بھی کر لیا تو اگلے ماہ حکومت مخالف احتجاج پھر بھی ہو گا۔ اور اُن کی بہن آصفہ بھٹو اس کی قیادت کریں گی۔
اسلام آباد میں جعلی بینک اکاؤنٹ کیس سے متعلق تحقیقات میں نیب آفس میں پیشی کے بعد ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مئی میں نیب میں پیشی اور سوالنامے کے جواب کے بعد کئی ماہ تک خاموشی رہی۔ لیکن جب دسمبر میں راولپنڈی لیاقت باغ جلسے کا اعلان کیا تو طلبی کا نوٹس بھجوا دیا گیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ دسمبر میں پیش نہ ہونے کے باوجود نیب نے کوئی نیا نوٹس نہیں دیا لیکن جب مارچ سے ملک میں معاشی صورتِ حال اور 'پی ٹی آئی ایم ایف ڈیل' کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تو فوری نوٹس مل گیا۔
بلاول بھٹو بولے کہ ایک سال قبل اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بلاول بے قصور ہیں۔ لیکن اس کے باوجود نیب کے سامنے بار بار پیش ہو رہا ہوں۔ تحفظات کے باوجود اداروں کے احترام میں ہر سوال کا جواب دے رہا ہوں۔
بلاول بھٹو کی نیب آفس میں پیشی کے موقع پر سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، سابق وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ اور پارٹی کے دیگر قائدین اور سندھ حکومت کے وزراء بھی موجود تھے۔
نیب نے بلاول بھٹو کو زرداری گروپ اور بحریہ ٹاؤن کی مشترکہ فرم 'جے وی اوپل-255' سے متعلق تفتیش کے لیے بلایا تھا اور انہیں اس حوالے سے 30 سوالات پر مبنی سوالنامہ بھی دیا گیا ہے۔
نیب کے مطابق بلاول بھٹو اس فرم کے 25 فی صد حصص (شیئرز ) رکھتے ہیں۔
بلاول بھٹو نے سوال اُٹھایا کہ زرداری گروپ اور بحریہ ٹاؤن کمپنی کے درمیان ہونے والی ٹرانزیکشن سے متعلق مجھ سے سوالات پوچھے گئے۔ میرا اعتراض یہ ہے کہ اس کا نیب سے کیا تعلق ہے؟
بلاول بھتو نے کہا کہ حکومت کی پالیسیوں نے عوام، مزدوروں، کسانوں، چھوٹے دکان داروں، چھوٹے تاجروں کا معاشی قتل کردیا ہے۔ اور پھر وزیر اعظم کہتے ہیں کہ قبر میں سکون ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ 'پی ٹی آئی-آئی ایم ایف' کے بجٹ کو نہیں مانتے اور اس عوام دشمن بجٹ کو پھاڑ کر پھینک دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ مارچ میں حکومت مخالف تحریک کا آغاز کر رہے ہیں چاہے وہ مارچ ہو، سیمینارز یا تحریک کی شکل اختیار کرے ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اگر انہپں گرفتار کیا گیا تو یہ غیر قانونی ہوگا لیکن یہ حکومت کچھ بھی کرسکتی ہے۔ بلاول بولے کہ پاکستان پیپلزپارٹی جانتی ہے کہ جدوجہد کیسی ہوتی ہے اور اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو آصفہ بھٹو ان کی آواز بنیں گی۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے بلاول بھٹو کی نیب میں پیشی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے بلاول بھٹو کو مختلف مقدمات میں تفتیش کے لیے طلب کیا۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بلاول کو نیب نے جے وی اوپل اور اوپل 225 کیس میں تحقیقات کے لیے بلایا تھا جو سپریم کورٹ کی ہدایت پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے نیب کے حوالے کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جے وی 225 کیس میں بلاول بھتو پر الزام ہے کہ زرداری گروپ آف کمپنیز نے اس کمپنی کے اکاؤنٹ میں ایک ارب 25 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کی ہے۔
شہزاد اکبر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بلاول بھتو کو بے قصور نہیں بلکہ معصوم کہا تھا۔ جو شیخ رشید بھی اکثر اُنہیں کہتے رہتے ہیں۔
تجزیہ کار سرور منیر راؤ کہتے ہیں کہ حزب اختلاف پہلے دن سے کہہ رہی ہے کہ موجودہ حکومت جائز طریقے سے نہیں آئی۔ حکومت بھی اپوزیشن کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر نہیں بنا سکی، یہی وجہ ہے کہ سیاسی ماحول میں تلخی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طرز حکمرانی میں نقائص اور مہنگائی کے سبب تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی آئی ہے۔ جسے اپوزیشن اپنی طاقت کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
سرور منیر راؤ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی عوامی تحریک اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ جب تک ملک کی مقتدر قوتوں کی حمایت نہ ہو یا یہ قوتیں غیر جانبدار رہیں۔
البتہ سرور منیر راؤ کا ماننا ہے کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان اب فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔
بلاول بھٹو اس سے قبل تین مرتبہ جعلی بینک اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کیس میں بیان ریکارڈ کرانے کے لیے نیب کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 24 دسمبر کو دوبارہ طلب کرنے پر بلاول بھٹو نے پیش نہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد انہیں 13 فروری کو دوبارہ طلب کیا گیا۔
نیب کی جانب سے بلاول بھٹو کو حالیہ پیشی کا نوٹس 7 فروری کو بھیجا گیا تھا جس میں بلاول بھٹو کو زرداری گروپ کمپنی کا 2008 سے لے کر 2019 تک کا تمام ریکارڈ ساتھ لانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اور ان سے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی فہرست بھی طلب کی گئی تھی۔