رسائی کے لنکس

سیاسی ماحول میں کشیدگی برقرار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے سیاسی ماحول میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تناؤ بڑھتا جا رہا ہے اور غیر جانبدار حلقوں کی طرف سے سیاسی کشیدگی میں اضافے کو ملک کے لیے مضر قرار دیے جانے کے باوجود صورتحال میں بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔

حزب مخالف کی مختلف جماعتیں حکومت پر دباؤ میں اضافے کے لیے اتحاد بنانے میں مصروف ہیں لیکن حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تمام تر سیاسی رکاوٹوں اور چیلنجز کے باوجود موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔

ادھر حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، ان کے تین بچوں اور سمدھی اسحٰق ڈار کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت جاری عدالتی کارروائیوں اور حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت قانونی سرگرمیوں کے باعث بھی ان دونوں جماعتوں کے درمیان حسب معمول لفظوں کی جنگ جاری ہے۔

رواں سال خاص طور پر جولائی میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے منصب سے علیحدگی کے بعد سے یہ سیاسی کشیدگی بڑھنا شروع ہوئی تھی جسے مبصرین آئندہ عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشن میں عوام کو متحرک کر کے اپنے موقف کی تائید حاصل کرنے کی کوشش قرار دیتے رہے ہیں۔

موجودہ حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت آئندہ سال جون میں مکمل ہو گی اور اس طرح انتخابات اگست کے اواخر میں ہوں گے۔ لیکن آئندہ عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق بھی شکوک و شبہات میں روز بروز اس بنا پر اضافہ ہو رہا ہے کہ تازہ مردم شماری کے بعد ضروری نئی حلقہ بندیوں کے لیے قانون سازی تاحال التوا کا شکار ہے۔

الیکشن کمیشن یہ کہہ چکا ہے کہ اگر جلد اس بابت قانون سازی نہیں ہوتی تو انتخابات کے بروقت انعقاد کے لیے وہ اپنا کام مکمل نہیں کر سکے گا۔

اس ضمن میں مجوزہ آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور ہو چکی ہے لیکن سینیٹ میں پیر کو بھی اس بل کی منظوری میں پیش رفت نہ ہو سکی۔ ایوان بالا میں حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے جو مردم شماری سے متعلق اپنے تحفظات کی بنا پر اس بل کی حمایت کرنے سے گریزاں ہے۔

اس ساری صورتحال کےملکی معیشت پر بھی کوئی اچھے اثرات مرتب نہیں ہو رہے ہے اور کاروباری حلقوں کی طرف اس پر خاصی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

بازار حصص میں مندی اور گراوٹ بھی دیکھی جا رہی ہے اور اس شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد کمزور پڑتا جا رہا ہے۔

انویسٹمنٹ اینڈ فنانس سکیورٹیز لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو افسر مزمل اسلم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس ساری صورتحال کے باعث رواں سال اسٹاک مارکیٹ میں کاروباری سرگرمیاں کم ہو کر 30 فیصد تک آ چکی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی بے یقینی اسی طرح سے جاری رہتی ہے تو کاروبار پر اس کے ناقابل تلافی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔

XS
SM
MD
LG